یوکرائن بحران، علیحدگی پسندوں نے فوجی گاڑیوں پر قبضہ کر لیا
17 اپریل 2014خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ کییف حکومت کی طرف سے انسداد دہشت گردی کے لیے شروع کیے گئے آپریشن کو اُس وقت شدید دھچکا لگا، جب بدھ کے دن یوکرائن کے مشرقی شہر کاماٹورسک میں روس کے پرچم تھامے ہوئے علیحدگی پسندوں نے ملکی فوج کی چھ بکتر بند گاڑیوں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا، اور انہیں سلاویانسک لے گئے۔ باغیوں کے قبضے والے اس شہر میں بعد ازاں ’روس، روس‘ کے نعرے بھی بلند کیے گئے۔ تاہم ابھی تک اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ باغیوں نے ملکی فوج کی ان گاڑیوں پر طاقت کے بل پر قبضہ کیا یا پھر فوجیوں نے خود ہی انہیں علیحدگی پسندوں کے حوالے کر دیا تھا۔
ایک اور واقعہ میں بدھ کے دن ہی اس شہر کے ایک فوجی اڈے کے قریب علیحدگی پسندوں نے پندرہ بکتر بند گاڑیوں کا محاصرہ کر لیا اور پیرا ملٹری فورس کو اس وقت واپس جانے کی اجازت دی ، جب انہوں نے اپنی گنوں کی گولیاں ایک باغی کمانڈر کے حوالے کیں۔ قبل ازیں ایسی اطلاعات بھی موصول ہوئی تھیں کہ روس نواز جنگجوؤں نے دو یوکرائنی فوجیوں کو اغوا کر لیا تھا۔
ملک کے مشرقی شہروں کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے کی جانے والی کارروائی کے الٹے نتائج برآمد ہونے سے کییف حکومت کی پوزیشن کچھ کمزور پڑ گئی ہے۔ یہ پیش رفت بالخصوص ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب جمعرات کو یورپی یونین، امریکا، روس اور یوکرائن کے وزرائے خارجہ باہم ملاقات کر رہے ہیں۔ جنیوا میں آج منعقد کی جا رہی اس میٹنگ میں یوکرائن کے بحران کا پر امن حل تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ناقدین کے مطابق عسکری محاذ پر ناکامی کے بعد مذاکراتی میز پر بھی یوکرائن کا مؤقف کمزور پڑ سکتا ہے۔
مشرقی یورپ میں نیٹو عسکری موجودگی بڑھائے گا
یوکرائن کے بحران کے تناظر میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے یورپ کی مشرقی ریاستوں میں اپنی عسکری موجودگی بڑھانے کا اعلان کر دیا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے کہا ہے کہ ممبر ریاستوں میں مزید ہوائی جہاز اور فوجی روانہ کیے جائیں گے، ’’ہوا میں ہمارے زیادہ طیارے ہوں گے، پانیوں میں زیادہ بحری جہاز ہوں گے اور ہمارے فوجی زمینوں پر تیار ہوں گے۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ یوکرائن کے تنازعے کے بعد نیٹو کی رکن متعدد ریاستوں نے کہا ہے کہ وہ روسی جارحیت سے خوف کا شکار ہیں۔
مغربی ممالک کا الزام ہے کہ یوکرائن کے علاقے کریمیا کو اپنا حصہ بنانے کے بعد اب ماسکو یوکرائن پر حکومت مخالف مظاہروں کی پشت پناہی کرتے ہوئے کییف پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ اس تناظر میں یوکرائن کے عبوری وزیر اعظم Arseniy Yatsekyuk نے کہا، ’’روس نہ صرف گیس اور تیل برآمد کر رہا ہے بلکہ ساتھ ہی وہ یوکرائن میں دہشت گردی بھی برآمد کر رہا ہے۔ انہوں نے روس پر زور دیا کہ وہ یوکرائن سے اپنے ’جاسوس اور تباہی پھیلانے والے گروہ‘ واپس بلا لے۔
اسی دوران راسموسن نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس بحران کے سیاسی حل کی توقع کرتے ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے آج بروز جمعرات جنیوا میں ہونے والی میٹنگ کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ اسی طرح جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ایک ترجمان نے بھی کہا ہے کہ ان مذاکرات سے اس بحران کے خاتمے کی طرف پہلی پیشرفت ممکن ہو سکے گی۔ تاہم روس کی طرف سے انتباہ کیا گیا ہے کہ یوکرائن کی حکومت کی طرف سے مشرقی علاقوں میں روسی نسل کی آبادی کے خلاف عسکری کارروائی سے یہ مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے خبردار کیا ہے کہ اگر کییف حکومت مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرتی ہے تو جنیوا مذاکرات ناکام ہونے کا خدشہ پیدا ہو جائےگا۔