یورپ اور ترکی میں کردوں کا احتجاج
8 اکتوبر 2014کرد مظاہرین کے ایک گروپ نے منگل کو بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کی عمارت پر دھاوا بول دیا۔ وہ شام میں کرد اکثریتی علاقے کوبانی پر جہادیوں کی چڑھائی پر احتجاج کر رہے تھے۔
یورپی پارلیمنٹ کی سکیورٹی سروسز نے کہا ہے کہ مظاہرین کے عمارت میں داخل ہونے کے واقعے کے حوالے سے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
یورپی پارلیمنٹ میں داخل ہونے والے مظاہرین کرد پرچم لیے ہوئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں ان کے مقید علیحدگی پسند رہنما عبداللہ اوجلان کے پتلے بھی تھے۔
مظاہرین میں خواتین بھی شامل تھیں۔ وہ منگل کو پولیس کی رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ اس موقع پر انہوں نے وہاں دھرنا دیا جبکہ متعدد یورپی رہنماؤں نے ان سے ملاقات کی۔
پارلیمنٹ میں سوشلسٹ گروپ کے سربراہ جینی پیتیلا نے مظاہرین سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اسلامی ریاست سے لڑیں گے۔‘‘
یورپی پارلیمنٹ کے صدر مارٹن شلس کے مطابق انہوں نے مظاہرین کی قیادت کرنے والوں سے ملاقات کی اور انہیں پر امن طریقے سے احتجاج ختم کرنے کے لیے کہا۔
تاہم انہوں نے مظاہرین سے یہ بھی کہا کہ انہیں بھی کوبانی کے حالات پر تشویش ہے۔ انہوں نے کہا: ’’میں شام اور عراق میں اسلامی ریاست کے خلاف لڑنے والے بین الاقوامی اتحاد کے لیے یورپی پارلیمنٹ کی حمایت کا اعادہ کرتا ہوں۔‘‘
کرد مظاہرین نے فرانس میں بھی ایک ایسا ہی مظاہرہ کیا۔ تقریباﹰ پانچ سو مظاہرین منگل کو پیرس میں وزارتِ خارجہ کے دفاتر کے سامنے اکٹھے ہوئے۔ فرانس کے شہر مارسے میں بھی مظاہرے ہوئے جبکہ نیس، بوردو اور تلوز میں بھی چھوٹے مظاہرے ہوئے۔
اُدھر کرد نواز مظاہرین نے ترکی میں بھی احتجاج کیا ہے۔ وہ کوبانی پر چڑھائی کرنے والے جہادیوں کے خلاف انقرہ حکومت کی جانب سے کارروائی نہ کرنے پر غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ پولیس کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں ان مظاہروں کے دوران کم از کم نو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
متعدد شہروں میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے جبکہ تیز دھار پانی بھی استعمال کیا۔
ترکی کے وزیر داخلہ افکان علا نے کرد نواز مظاہرین پر ’اپنے ہی ملک سے غداری‘ کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مظاہرین منتشر ہو جائیں، بصورتِ دیگر انہیں نتائج کا سامنا کرنا ہوگا۔
علا نے انقرہ میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’’تشدد کا جواب تشدد سے دیا جائے گا ۔۔۔ یہ نامعقول رویہ فوری طور پر ترک کر دیا جانا چاہیے اور مظاہرین کو سڑکوں سے ہٹ جانا چاہیے۔‘‘