یورپی یونین کی مدد سے مہاجرین کے لیے ملازمتوں کے مواقع
22 جولائی 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے یورپی سفارتکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ برسلز کی طرف سے اردن کے ساتھ اپنے تجارتی قواعد میں نرمی برتنے کے باعث مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں موجود شامی پناہ گزینوں کو ملازمتوں کے مواقع میسر آ سکیں گے۔
بتایا گیا ہے کہ اردن نے تسلیم کیا ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے ایسی مراعات کے جواب میں وہ پناہ گزینوں کو یورپی کمپنیوں میں ملازمتیں فراہم کرنے کے حوالے سے عملی قدامات کرے گا۔
یورپی یونین اور اردن کے حکام نے بتایا ہے کہ ایسی کمپنیاں جو ایک مخصوص تعداد میں مہاجرین کو ملازمتیں فراہم کریں گی، وہ اپنی متعدد مصنوعات کی برآمد پر آئندہ دس برس تک مقابلتاﹰ کم ٹیکس ادا کریں گی۔
اس پیش رفت کو اردن کی اقتصادیات کے لیے بھی اہم قرار دیا جا رہا ہے، جہاں ساڑھے چھ لاکھ مہاجرین کی آمد کی وجہ سے حکومت کو بے تحاشا مالی اور انتظامی مشکلات کا سامنا ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث وہاں سے فرار ہونے والے شہری کئی دیگر ہمسایہ ممالک کے علاوہ اردن میں بھی پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
یورپی یونین اور اردن کے مابین اس ڈیل کو فروری میں لندن میں ہوئی ڈونرز کانفرنس کی پالیسی کی روشنی میں طے کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ شام کے ہمسایہ ممالک میں پناہ لیے ہوئے شامی مہاجرین کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنایا جائے تاکہ وہ مسائل سے بچنے کی خاطر یورپی ممالک کا رخ کرنے کی کوشش نہ کریں۔
اعلیٰ یورپی سفارتکار یوہانس ہان Johannes Hahn نے اردن کے ساتھ طے پانے والی اس ڈیل کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا، ’’مجھے یقین ہے کہ یہ فیصلہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے اردن کی کوششوں کے حوالے سے سودمند ثابت ہو گا۔‘‘
اردن نے فی الحال شامی مہاجرین کو صنعتی اداروں اور برآمدی خطوں میں کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ اب ان کمپنیوں کو یہ اجازت بھی مل گئی ہے کہ وہ اپنی مجموعی افرادی قوت کے پچیس فیصد کے برابر تک مہاجرین بھرتی کر سکتی ہیں۔
اردن کے وزیر منصوبہ بندی عماد فاخوری نے اس ڈیل کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا، ’’یہ ایک ایسی پیش رفت ہے، جس کے تحت شامی مہاجرین کے بحران کو ایک اقتصادی موقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ شامی مہاجرین اردن کی افرادی قوت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
فاخوری کے مطابق یورپی یونین نے اسی مقصد کے لیے سال دو ہزار سولہ اور سترہ کے دوران سات سو سینتالیس ملین یورو کے آسان قرضے اور مالی عطیات فراہم کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔
اردن اب تک بیس ہزار شامی مہاجرین کو ورک پرمٹ جاری کر چکا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق آئندہ کچھ برسوں کے دوران اٹھہتر ہزار مزید شامی مہاجرین کو اردن میں کام کرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
یورپی یونین اور ترکی نے بھی مہاجرین کے بحران کے حل کے لیے ایک ڈیل کی ہے، جس کے تحت نہ صرف مالی بلکہ دیگر مراعات کے بدلے انقرہ حکومت مہاجرین کی یورپ آمد کے سلسلے کو روکنے کے لیے مصروف عمل ہے۔