1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورو ہاک ڈرون: وزیر دفاع دباؤ میں

ماتھیاس بوئلنگر / اے اے31 جولائی 2013

وفاقی جرمن وزیر دفاع تھومس ڈے میزیئر آج جرمن پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹی میں پیش ہو رہے ہیں، جہاں اُن سے 600 ملین یورو مالیت کے یورو ہاک ڈرون منصوبے کی ناکامی کے حوالے سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/19HbX
وفاقی جرمن وزیر دفاع تھومس ڈے میزیئر
وفاقی جرمن وزیر دفاع تھومس ڈے میزیئرتصویر: Getty Images

اس پوچھ گچھ کا مقصد دراصل یہ پتہ چلانا ہے کہ اتنے برسوں بعد اور اتنے پیسے خرچ کرنے کے بعد ہی کیوں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جرمنی کی فضاؤں میں اس ڈرون کو پرواز کی اجازت نہیں ہے۔ بنیادی مقصد وزیر دفاع کے قصور وار ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چلانا ہے۔

جرمنی میں پارلیمان کی تحقیقاتی کمیٹیاں ’اپوزیشن کا مؤثر ترین ہتھیار‘ تصور کی جاتی ہیں، جن میں وُزراء سے بھی کھلے عام اُن کے کیے کا حساب لیا جا سکتا ہے۔ یورو ہاک ڈرون کے معاملے پر جو ’جنگ‘ لڑی جا رہی ہے، وہ ایک اعتبار سے ستمبر میں مجوزہ عام انتخابات کے معاملے پر بھی لڑی جا رہی ہے۔ اسی لیے تو پارلیمان کی موسم گرما کی تعطیلات کے باوجود تحقیقاتی کمیٹی کے اجلاس تواتر کے ساتھ جاری رہے اور ایک مہینے میں آٹھ اجلاس منعقد ہوئے۔ ظاہر ہے، اپوزیشن کا مقصد وزیر دفاع کی ساکھ کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا ہے۔ جواب میں حکومتی جماعتیں اس حملے کا دفاع کر رہی ہیں۔

600 ملین یورو خرچ کر دیے گئے اور پھر کہا گیا کہ ان ڈرونز کو مستقبل قریب میں جرمنی میں پرواز کی اجازت ملنا غیر حقیقت پسندانہ ہو گا چنانچہ یہ منصوبہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا
600 ملین یورو خرچ کر دیے گئے اور پھر کہا گیا کہ ان ڈرونز کو مستقبل قریب میں جرمنی میں پرواز کی اجازت ملنا غیر حقیقت پسندانہ ہو گا چنانچہ یہ منصوبہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیاتصویر: picture-alliance/dpa

وزیر دفاع کٹہرے میں

تحقیقاتی کمیٹیاں بھی ایک طرح سے عدالتی مقدمات کی طرح ہوتی ہیں کہ ان میں بھی شواہد پیش کیے جاتے ہیں اور گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جاتے ہیں۔ اس تحقیقاتی کمیٹی کا کام یہ پتہ چلانا ہے کہ کن وجوہات کی بناء پر اس سال مئی میں بغیر پائلٹ والے جاسوس طیارے یورو ہاک کی تیاری پر کام روک دیا گیا۔ کہیں 600 ملین یورو خرچ کر دینے کے بعد کہا گیا کہ مستقبل قریب میں اس ڈرون طیارے کو جرمنی کی فضاؤں میں پرواز کی اجازت ملنا غیر حقیقت پسندانہ ہو گا۔ اگر اس سارے معاملے میں وزیر دفاع تھومس ڈے میزیئر کا قصور ثابت ہو گیا، جو کہ چانسلر انگیلا میرکل کے قریبی ساتھی ہیں، تو اس کے اثرات کی زَد میں پوری حکومت آئے گی۔

ایسے میں حکومت کی کوشش ہے کہ اپنی کابینہ کے رکن ڈے میزیئر کی بجائے اصل قصووار اپوزیشن کی صفوں میں تلاش کیا جائے۔ اس صورت میں قرعہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے روڈولف شارپنگ کے نام نکلے گا، جو 1998ء سے لے کر 2002ء تک وزیر دفاع رہے تھے۔ تحقیقاتی کمیٹی میں حکومتی جماعت CDU کے نمائندے تھومس گروبل نے کہا:’’یورو ہاک کا منصوبہ SPD اور گرینز نے شروع کیا تھا۔‘‘

شارپنگ کو شروع ہی میں اس کمیٹی میں بلا لیا گیا تھا۔ تاہم اُنہوں نے اپنے جانشین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی وزیر برسوں تک ایک عہدے پر رہے اور اُسے کسی منصوبے کے آغاز میں کی گئی غلطیوں کا پتہ نہ چلے‘۔

شارپنگ نے ڈے میزیئر کے اس موقف کو بھی چیلنج کیا کہ اُن کے عملے نے اُنہیں کافی معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ شارپنگ کے مطابق وزیر دفاع کا فرض تھا کہ وہ اپنے عملے سے بار بار استفسار کرتے، جیسے کہ وہ یعنی شارپنگ کیا کرتے تھے۔ یوں اپوزیشن دباؤ بڑھاتے ہوئے یہ کہہ رہی ہے کہ سارا قصور ہی ڈے میزیئر کا ہے اور انہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کہہ چکی ہیں کہ اُنہیں اپنے وزیر دفاع پر پورا اعتماد ہے
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کہہ چکی ہیں کہ اُنہیں اپنے وزیر دفاع پر پورا اعتماد ہےتصویر: Reuters

وزیر دفاع نے ’پوری ذمے داری‘ نہیں نبھائی

اپوزیشن کی اہم ترین گواہ وفاقی محکمہء آڈٹ کی جانچ پڑتال کرنے والی خاتون اہلکار انگیلیکا باؤخ تھی، جنہوں نے الزام لگایا کہ وزارتِ دفاع نے صنعتی شعبے پر اندھا اعتماد کیا اور وزیر دفاع نے باقاعدگی کے ساتھ تمام معلومات حاصل کرنے کی ذمے داری نہیں نبھائی۔

اسٹیٹ سیکرٹری سٹیفان بیمل مانز نے وزیر دفاع کے حق میں بیان دیا اور اعتراف کیا کہ وہ وزیر دفاع کو بر وقت ڈرون کے سلسلے میں پیدا ہونے والے مسائل سے آگاہ نہیں کر سکے اور یہ کہ ’سارا قصور خود اُن کا ہے‘۔ جرمن فوج میں ساز و سامان کی خریداری کے دفتر کے صدر ہارالڈ شٹائن نے بھی اپنی گواہی میں یہ کہا کہ وزیر دفاع بر وقت اس منصوبے سے الگ ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر یہ منصوبہ ایک سال پہلے ہی ختم کر دیا جاتا تو فضا سے تصاویر لینے کا وہ نظام مکمل نہ ہو پاتا، جو آدھے سے زیادہ بجٹ کھا گیا ہے اور جسے اب ضرورت پڑنے پر دوسرے طیاروں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیر دفاع آج اپنے دفاع میں کیا کہتے ہیں۔ تحقیقاتی کمیٹی اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد اپنی اختتامی رپورٹ تیار کرے گی لیکن وہ کوئی فیصلے کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ نتائج اخذ کرنا خود وزیر دفاع کا یا پھر اُن کی چیف یعنی چانسلر انگیلا میرکل کا کام ہے، جو واضح طور پر کہہ چکی ہیں کہ وہ اپنے وزیر دفاع کے ساتھ ہیں۔ عام انتخابات سے کچھ ہی پہلے وہ مزید کسی دھچکے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔