''گدھی کے دودھ کی مانگ میں اضافہ‘‘
21 نومبر 2016نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس جانور کے دودھ کی مانگ میں اضافے سے بلقان میں گدھوں کی نسل کو ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے گدھوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی دیکھی گئی تھی۔ اس جانور کے دودھ کو فروخت اور اسے خریدنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی صحت بخش ہے۔
مونٹی نیگرو میں گدھوں کے فارم کے مالک ڈارکو سویلجک کا کہنا ہے، ’’یہ دودھ جلد کے لیے انتہائی مفید ہے اور اس کے استعمال سے کئی بیماروں سے بچا جا سکتا ہے۔‘‘ ڈارکو کا کہنا ہے کہ روازانہ اس جانور کے دودھ کا تھوڑا سا استعمال دمے کی بیماری میں بھی شفا دے سکتا ہے۔ ڈارکو کا دعویٰ ہے کہ گدھی سے اس طرح دودھ حاصل نہیں کیا جا سکتا جیسے کہ گائے یا بھینسں سے۔ یہ جانور بہت کم تعداد میں دودھ دیتے ہیں۔
دارالحکومت سے کچھ دور ویلیریا مارکووک نے اس جانور کا دودھ فروخت کرنے والے ایک فارم سے رابطہ کیا ہے۔ ویلیریا کے پانچ سالہ بیٹے کو کئی اقسام کی الرجیز ہیں جو رات کو اس کے بیٹے کو سانس لینے میں مشکل پیدا کرتی ہیں۔ ویلیریا نے اے ایف پی کو بتایا کہ میں نے بس یہ سن رکھا تھا کہ قلوپطرہ گدھی کے دودھ میں نہاتی تھی، لیکن اس دودھ کے استعمال سے میرے بیٹے کی حالت بہتر ہوئی ہے۔
سائپرس یونیورسٹی برائے ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر پھوٹیز پاپاڈیماس کا کہنا ہے کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ گدھی کا دودھ ان افراد کے لیے فائدہ مند ہے جن کی قوت مدافعت کمزور ہے۔ اس حوالے سے بہت مضبوط شواہد تو نہیں ہیں لیکن پھر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ گدھی کا دودھ مفید ہے۔
واضح رہے کہ گدھی کے دودھ کو سربیا میں بھی پسند کیا جاتا ہے، جہاں اس دودھ سے بنائی گئی 50 گرام پنیر لگ بھگ 48 یورو میں فروخت کی جاتی ہے۔ اسے دنیا کی مہنگی ترین پنیر تصور کیا جاتا ہے۔
مونٹی نیگرو میں سن 2010 میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گدھوں کی تعداد کل 500 تھی۔ ڈارکو کا کہنا ہے کہ مونٹی نیگرو میں صرف 150 گدھے رہ گئے ہیں۔ ڈارکو نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ تین دہائیوں قبل مونٹی نیگرو کے ہر گھر میں گدھے پالے جاتے تھے لیکن وقت کے ساتھ کام کروانے کے لیے ان کی جگہ مشینوں نے لے لی۔
ڈارکو کو امید ہے کہ لوگوں میں اس جانور کے بارے میں شعور پیدا ہونے سے شاید اس جانور کی نسل کو بچانے میں مدد مل سکے۔