1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا کراچی میں بھتہ خوری کا خاتمہ ممکن ہے؟

31 جنوری 2013

روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ کراچی کے شہری بالخصوص تاجر بڑھتی ہوئی بھتہ خوری سے انتہائی پریشان ہیں۔ ان کے مطابق شہر میں اغواء اور قتل کی وارداتوں کے پیچھے بھی زیادہ تر بھتہ خور مافیا کا ہی ہاتھ ہے۔

https://p.dw.com/p/17UEb
تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے اور ملک کی اقتصادی شہ رگ کہلانے والے شہر کراچی کے عوام ایک عرصے سے عدم سلامتی کے احساس میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال کو کنڑول کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے دعوے تو نظر آتے ہیں لیکن اس حوالے سے عملی قدم نہ نظر آنے کے برابر ہے۔

Pakistan Bombenanschlag in Karachi
’حکومت اور سیاسی جماعتیں چاہیں تو اس مسلئے پر قابو پا سکتی ہیں ‘تصویر: rtr

بھتہ خوری کا ناسور کئی دہائیوں سے کراچی کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے تاہم گزشتہ چند برسوں سے جبراً رقوم کی وصولی اور عدم ادائیگی پر سنگین نتائج کی دھمکیوں اور پھر ان پر عملدرآمد کی وارداتوں میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے، جس پر عام شہری اور خاص طور پر تاجر برادری بھی سراپا احتجاج ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق ملوث افراد کے خلاف کاروائیاں کی جا رہی ہیں اور اب تک کئی افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ تاہم لوگوں کے استحصال کے واقعات میں کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوئی۔

ان کاروائیوں میں آخر کون لوگ ملوث ہیں؟ اس حوالے سے کراچی میں تاجروں کے مطالبے پر بھتہ خوری پر قابو پانے کے لیے گزشتہ برس وجود میں آنے والے خصوصی سیل کے سب انسپکٹر غوث عالم کہتے ہیں کہ CID اور انسداد بھتہ خوری سیل نے گزشتہ برس کئی ایسے افراد کو گرفتار کیا، جو سیاسی جماعتوں سے جھوٹی وابستگی ظاہر کرتے ہوئے بھتہ وصولی میں ملوث تھے۔

ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بھتہ خوری کی وارداتوں میں کالعدم مذہبی جماعتوں کے ملوث ہونے کا بھی ذکر کیا: ’’اس میں کالعدم تنظیمیں شامل ہیں۔ صرف اس لیے کہ اس میں سہولت کے ساتھ پیسے مل جاتے ہیں۔ انہوں نے کسی کو بول کر، بم دھماکے کرکے، ڈرا دھمکا کر، اپنی کاروئیاں دکھا کر لوگوں سے پیسہ وصول کیا ہے اور یہ بھتے کی صورت میں لیے گئے ہیں۔ حال ہی میں ہم نے کالعدم تنظیموں کے، تحریک طالبان پاکستان کے بعض افراد کو گرفتار کیا ہے جو بھتہ خوری میں ملوث تھے۔‘‘

کراچی کی سب سے بڑی اور حکومتی اتحاد میں شامل جماعت متحدہ قوم موومنٹ (ایم کیو ایم) سے وابستہ ممبر صوبائی اسمبلی خواجہ اظہار الحسن کے مطابق بھتہ خوری میں بعض جماعتوں کا کردار بھی نظر آتا ہے: ’’کچھ ایسے لوگ ان بھتہ خوروں کے پیچھے ہیں جو شاید بلاواسطہ حکومت میں بھی اپنا اثر رکھتے ہیں اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان کی پشت پناہی کرتی ہیں، خاص طور سے وہ سیاسی جماعتیں جو کراچی میں اپنا مینڈیٹ کھو چکی ہیں ان بھتہ خوروں کے ساتھ باقاعدہ اتحاد کرکے میڈیا کے سامنے علی الاعلان ان کو حوصلہ دیتی ہیں۔‘‘

بھتہ خوری میں سیاسی جماعتوں کے ملوث ہونے کی جانب نامور تجزیہ نگار مجاہد بریلوی نے بھی اشارہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اور سیاسی جماعتیں چاہیں تو اس مسلئے پر قابو پا سکتی ہیں جس کے لیے زیادہ موثر کارروائیوں کی ضرورت ہے: ’’بدقسمتی سے ماضی میں یہ رجحان تھا کہ اپنے سیاسی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں نے جرائم پیشہ افراد کو استعمال کیا، جو آج خود حکومت کے لیے نقصان دہ بن گئے۔ میں نہیں کہتا کہ شاید ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی یہ نہیں چاہتیں کہ بھتہ خوری ختم نہ ہو لیکن انہوں نے جو ماضی میں غلطیاں کیں، اس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑے گا۔‘‘

Pakistan Proteste gegen Musharraf
بھتہ خوری کی وارداتوں میں کالعدم مذہبی جماعتوں کے ملوث ہونے پر بھی شک کیا جاتا ہےتصویر: AP

سینئیر تجزیہ نگار احفاظ الرحمان بھی کہتے ہیں کہ بھتہ خوری کے خلاف حکومت اور قانون نافذ کرنے والوں کی نیک نیتی سے کی جانے والی کارروائی سے قابو پایا جا سکتا ہے تاہم ایسا ہوتا نظر نہیں آتا: ’’ہمارا قانون نافذ کرنے والا سسٹم ناکارہ ہے۔ اس میں خود بد عنوان لوگ موجود ہیں۔ پھر جو حکومت کے کار کردہ افراد ہیں، ان کی خود اس پر توجہ نہیں۔ ان کے مسائل ہی الگ ہیں کیونکہ وہ خود بھی بد عنوانی میں ملوث ہیں تو وہ نیچے کیسے اس پر قابو کر سکتے ہیں۔ ‘‘

احفاظ الرحمان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت بھتہ خوری میں مختلف مافیاز کا کردار بھی نظر آتا ہے۔ ان میں ڈرگ مافیا، پریشر گروپس، سیاسی، سماجی اور مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں جو ڈرا دھمکا کر بھتہ وصول کرتی ہیں اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔

کراچی کے عوام اور خصوصاً تاجروں کا مطالبہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کرپشن ختم کرتے ہوئے انہیں بھتہ خوروں کے خلاف کاروائی کا پابند کیا جائے تاکہ شہر کے حالات میں بہتری آئے۔

رپورٹ: عنبرین فاطمہ ، کراچی

ادارت: عاطف بلوچ