کم سن خود کش بمباروں کے استعمال میں اضافہ
23 اگست 2016اتوار 21 اگست کو عراق کے شمالی شہر کرکوک میں جب پولیس نے سولہ سال سے کم عمر نظر آنے والے ایک لڑکے کو پکڑا تو وہ بہت سہما ہوا نظر آ رہا تھا۔ اس کی قمیض کھینچنے پر پولیس کو اس کی دبلی پتلی کمر کے ساتھ قریب دو کلو وزن کا بم بندھا ہوا ملا۔ لیکن اس واقعے سے فقط ایک دن قبل ترکی میں شادی کے جشن میں شریک مہمان اتنے خوش قسمت نہیں تھے جہاں ایک نو عمر خود کش بمبار نے خود کو بم سے اڑا دیا۔ ترک حکام کا کہنا ہے کہ اس بم حملے میں اکیاون افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں نصف کے قریب بچے تھے۔
ہفتہ 20 اگست کو شامی سرحد کے قریب ترک صوبے غازی انتیپ میں اسی نام کے شہر میں ہونے والا یہ خود کش حملہ ترکی میں اس سال ہونے والے مہلک ترین حملوں میں سے ایک تھا بلکہ یہاں یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ دہشت گردانہ کارروائی کے لیے کسی نو عمر خود کش بمبار کو استعمال کیا گیا۔
افریقہ سے شام تک کم عمر بچوں کو جنگوں میں پہلے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اسی طرح افغانستان میں بھی طالبان نے ایک طویل عرصے تک دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے بچوں کا استعمال کیا۔ افغانستان میں سن 2014 میں سائیکل پر سوار ایک چودہ سال کے لڑکے نے نیٹو بیس میں خود کش حملہ کیا تھا جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے دو برس بعد افغان دارالحکومت کابل میں ایک نو عمر لڑکے نے فرانسیسی ثقافتی مرکز میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔
محققین کا کہنا ہے کہ اب اسلامک اسٹیٹ اور دیگر عسکریت پسند بھی تیزی سے اسی حکمت عملی کا استعمال کر رہے ہیں۔ غالباﹰ اس طرح وہ اپنی صفوں میں ہوئے نقصانات کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں یا پھر ان کا مقصد بالغ جنگجوؤں کو کسی بڑی کارروائی کے لیے سنبھال کر رکھنا ہے۔ مغربی افریقہ میں شدت پسند تنظیم بوکو حرام بھی بچوں اور کم سن بچیوں کو خود کش بمبار بنانے کے لیے اغوا کر چکی ہے۔
اس حوالے سے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ شام اور عراق میں اپنے زیر تسلط علاقوں سے بچوں کو اپنی تحویل میں لیتی ہے اور پھر مدرسوں اور کیمپوں میں ان بچوں کو مخصوص نظریات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ عسکریت پسند گروپوں میں اسلامک اسٹیٹ بالخصوص وہ دہشت گرد جماعت ہے جو ان بچوں کو ’خلافت کا کم سن اسکاؤٹس بریگیڈ ‘ کا نام دیتی ہے اور ان کے تربیتی مراحل کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شائع کی جاتی ہیں۔
بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی علاقائی ترجمان جولیٹ توما کے مطابق خطے میں بچوں کی بھرتی میں اضافہ ہوا ہے۔ توما کا کہنا ہے، ’’دہشت گردانہ کارروائیوں میں بچے بہت فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہیں اگلے مورچوں پر تعینات کیا جاتا ہے اور بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت دی جاتی ہے۔ بعض انتہائی صورتوں میں خود کش بمبار کی طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اتوار کے روز بیان دیا تھا کہ شادی کی تقریب میں خود کو دھماکے سے اڑانے والے خود کش حملہ آور کی عمر بارہ سے چودہ سال کے درمیان تھی۔ صدر ایردوآن نے شبہ ظاہر کیا تھا کہ اس حملے میں شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔