کاش میں وقت کو پیچھے لے جا سکتی ، میرکل
1 اکتوبر 2016میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیمو کریٹک یونین کو گزشتہ ماہ جرمنی کی دو ریاستوں میں ہونے والےانتخابات میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ ووٹرز نے میرکل کی مہاجرین کے لیے جرمنی میں آزادانہ داخلے کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے مہاجر مخالف جماعت کو ووٹ دیے۔ اپنی جماعت کی شکست کی کسی حد تک ذمہ داری قبول کرتے ہوئے میرکل نے مصالحتی رویہ اپنایا اور یہ بیان دیا کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ مہاجرین کی بڑے پیمانے پر آمد کے لیے جرمنی کو تیار کرنے کے لیے وقت کو کئی برس پیچھے لے جاتیں۔
چانسلر میرکل نے آج ہفتے کی اشاعت میں جرمن اخبار ’زیخزِشے سائیٹنگ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا،’’ میں نے اپنی پالیسی کو تبدیل نہیں کیا بلکہ بنایا ہے۔ مجھے اپنی پالیسی میں کئی ماہ تک کیے جانے والے مربوط کام کے علاوہ اور کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔‘‘ میرکل نے اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ وہ گزشتہ موسمِ گرما سے یورپ اور جرمنی کے لیے مہاجرین کے بحران کا بہترین حل تلاش کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ میرکل کے مطابق اُن کا اوّلین مقصد یورپ کی بیرونی سرحدوں کی حفاظت اور مشرقِ وسطیٰ ، ایشیا، اورافریقہ میں اُن اسباب کے خلاف جنگ کرنا ہے جو مہاجرت کا سبب بنتے ہیں۔
میرکل کا کہنا تھا کہ اِس کے ساتھ ساتھ جرمنی کو مہاجرین کی آمد کے عمل کو منظم بھی بنانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا،’’ ہمارا مقصد ہے کہ جرمنی میں گزشتہ سال جیسی صورتِ حال دوبارہ پیدا نہ ہو۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے گزشتہ بارہ ماہ میں مہاجرین کے بحران کے حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔‘‘ جرمن چانسلر میرکل کا کہنا ہے کہ اب اُن لوگوں کو وطن واپس بھیجنے کے حوالے سے کام کیا جائے گا جو سیاسی پناہ کے مستحق نہیں۔ علاوہ ازیں یورپی یونین کے رکن ممالک کے مابین مناسب انداز میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ بھی مقرر کرنا ہو گا۔