چین میں سرکاری عمارتوں میں تمباکو نوشی پر پابندی
29 اپریل 2011جین میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد 300 ملین ہے جو تقریباً امریکہ کی کُل آبادی جتنی ہے۔ چین کو ایک ایسا ملک مانا جاتا ہے، جہاں کے عوام تمباکو کے عادی ہیں۔ چین میں سرکاری عمارتوں کے اندر تمباکو نوشی پر پابندی عائد کرنے کا مقصد چین کو ترقی یافتہ ممالک کے صحت کے نظام کے ساتھ مطابقت رکھنے والا معاشرہ ثابت کرنا ہے۔ چین میں تمباکو نوشی کے رجحان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ سگریٹ کی پیشکش کرنا کسی بھی ملنے والے کو خوش آمدید کہنے کا پہلا قدم ہوتا ہے۔ لفٹ ہو یا ہسپتال کا ویٹنگ روم، سگریٹ سلگا لینا نہایت عام سی بات ہے۔ بیجنگ کا رہنے والا 32 سالہ باشندہ یانگ لی گزشتہ چار سالوں سے تمباکو نوشی کر رہا ہے۔ اس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’ میں نہیں سمجھتا کہ تمباکو نوشی پر پابندی سے معاشرے پر کوئی خاص اثر پڑے گا۔ چین میں لوگ ایسے رستورانوں میں بھی تمباکو نوشی کر رہے ہوتے ہیں جہاں ’ نو اسموکنگ‘ کا بورڈ لگا ہوتا ہے۔ جب لوگ دوست احباب کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں تو بہت کم ہی لوگ دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ انہیں تمباکو نوشی پرکوئی اعتراض تو نہیں۔ ریستوران کے مینیجرز بھی شاذ و نادر ہی اپنے مہمانوں کو تمباکو نوشی سے روکتے ہیں‘۔
صحت کے متعدد ماہرین چین کو تمباکو نوشی کے مُضر اثرات کے ٹائم بم سے متنبہ کر چُکے ہیں، کیونکہ چین دنیا کا تمباکو پیدا کرنے اور اس کا سب سے بڑا صارف ملک بھی ہے۔ اس اعتبار سے تمباکو نوشی پر پابندی چینی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا قدم ہے۔ امریکہ میں قائم ایک پبلک ہیلتھ ادارے Bloomberg Foundation جس کے دائرہ کار میں تمباکو کنٹرول بھی شامل ہے اور جو دنیا بھر میں تمباکو نوشی کے خلاف مہم کی مالیاتی معاونت بھی کرتا ہے، سے منسلک کیلی ہیننگ نے کہا ’ چین کی وزارت صحت نے تمباکو نوشی پر روک تھام کے حوالے سے ایک اہم قدم اُٹھایا ہے‘۔
تاہم چینی عوام اس پابندی کا کس حد تک احترام کرتے ہیں یہ ہنوز ایک کُھلا سوال ہے۔ اسی نوعیت کی پابندیاں 2008 ء میں بیجنگ میں منعقد ہونے والے اولمپک کھیلوں کے انعقاد اور گزشتہ برس شنگھائی منعقدہ Expo کے مواقع پر بھی لگائی گئی تھیں تاہم ان کا احترام اور اطلاق بہت ہی کم ہو سکا تھا۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک