چودہ سال کی عمر میں شادی: ’قانون نہیں بدلے گا‘
11 فروری 2011بچوں اور ان کی حفاظت سے متعلق اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیمیں بھی یہ مطالبے کر چکی ہیں کہ اسپین میں شادی کی کم سے کم عمر کی حد چودہ سال سے بڑھا کر سولہ برس کی جانی چاہیے۔ لیکن اب میڈرڈ حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ فی الحال شادی کے لیے کم سے کم قانونی عمر کی موجودہ حد میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔
اس بارے میں اسپین کی خاتون وزیر صحت Liere Pajin نے سرکاری ٹیلی وژن پر اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ یہ بات کھل کر کہہ دینا چاہتی ہیں کہ ہسپانوی حکومت کا عمر کی اس حد کے سلسلے میں ملکی تعزیرات میں کسی قانونی ترمیم کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں ہے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس قانون سے متعلق ایک ایسی تکنیکی بحث بہرحال جاری ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ اس قانون کے ممکنہ غلط استعمال کو کیسے روکا جائے۔ وزیر صحت نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اسپین ان یورپی ملکوں میں شامل ہے، جہاں شادی کی کم سے کم عمر یونین میں شامل کئی دیگر ریاستوں میں مروجہ قوانین کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
اسپین میں چودہ سال سے زائد عمر کے لڑکے لڑکیاں کسی مقامی جج کی اجازت سے اور اپنے اہل خانہ کی رضامندی سے اتنی کم عمری میں بھی شادی کر سکتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 اور 2008 کے درمیانی عرصے میں جزیرہ نما آئبیریا کی اس ریاست میں کل 326 ایسی شادیاں دیکھنے میں آئیں، جن میں دلہا یا دلہن کی عمر پندرہ برس یا اس سے بھی کم تھی۔
کئی ہسپانوی سماجی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ اکثر ایسا بھی ممکن ہوتا ہے کہ والدین جبری طور پر یا جذباتی دباؤ ڈال کر اپنے بچوں سے عدالت میں اپنے مرضی کے بیانات دلوا کر عدالتی رضامندی حاصل کر لیں اور یوں اس قانون کو غلط استعمال کریں، جو بہت چھوٹی عمر میں شادی کے حوالے سے نابالغ افراد کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا۔
اس بارے میں Save the Children نامی تنظیم کا کہنا ہے کہ چودہ برس کی عمر میں شادی پر آمادگی محض ایک تقابلی سچائی ہے کیونکہ تب تک کسی بھی لڑکے یا لڑکی کی جذباتی اور نفسیاتی نشو و نما مکمل نہیں ہوئی ہوتی۔
اسپین میں گزشتہ برس اکتوبر میں رومانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک دس سالہ بچی ماں بن گئی تھی اور اس واقعے کا سماجی حلقوں اور ملکی میڈیا میں طویل تذکرہ رہا تھا۔ اسی پس منظر میں میڈرڈ میں موجودہ سوشلسٹ حکومت نے ایک ایسا نیا قانون بھی متعارف کرا دیا تھا، جس کے تحت سولہ سال سے زائد عمر کی لڑکیاں اسقاط بھی حمل کرا سکتی ہیں۔
اس کے لیے قانونی طور پر شرط یہ ہے کہ ایسی حاملہ لڑکیوں کو اس بارے میں اپنے اہل خانہ کو اطلاع دینا ہو گی یا پھر انہیں تب بھی اسقاط حمل کی اجازت ہو گی، جب ان کے خلاف خاندانی سطح پر تشدد کا شدید خطرہ موجود ہو۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شادی خان سیف