چانسلر کا دورہء امریکا اور جرمن امریکی تعلقات
1 مئی 2014میرکل کا یہ دورہ دو مئی جمعے سے شروع ہو رہا ہے اور تین مئی کو اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ جرمنی اور امریکا کے تعلقات کبھی بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ جرمن صحافیوں، سیاستدانوں اور دانشوروں میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے لیے یوکرائن کے علاقے کریمیا پر اُن کے ناجائز قبضے کے باوجود تشویش ناک حد تک ہمدردی اور تفہیم کا جذبہ دیکھا گیا ہے جبکہ دوسری جانب یہی جرمن امریکا کی ہر نقل و حرکت کو شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
گزشتہ برس خزاں کے موسم میں امریکی صدر باراک اوباما کے برلن کے دورے کے بعد جرمن امریکی دوستی کا گراف اُس وقت تیزی سے نیچے گرتا دکھائی دیا جب این ایس اے کی طرف سے چانسلر میرکل کے فون کی جاسوسی کا اسکینڈل سامنے آیا۔ چانسلر میرکل گرچہ امریکا میں ایک مضبوط جرمن سیاسی لیڈر کی حیثیت سے بڑی قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ اُس کی خاص وجہ یہ ہے کہ پیدائشی طور پر سابق جرمن ڈیمو کریٹک ریپبلک میں اُس وقت کی کمیونسٹ حکومت کے دور میں پیدا ہونے اور وہیں پرورش پانے کے باوجود انگیلا میرکل نے شخصی آزادی کو مضبوطی سے اپنایا اور جرمنی سمیت یورپی معیشت کی مضبوطی میں ایک ایسا کردار ادا کیا، جسے امریکی مثالی تصور کرتے ہیں۔
جرمنی اور امریکا کے باہمی تعلقات کی حالیہ صورتحال پر محض این ایس اے کی ٹیلیفون جاسوسی کا معاملہ ہی اثر انداز نہیں ہوا ہے بلکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری کی وجہ متعدد ایسے مسائل بھی ہیں، جو ہنوز حل طلب ہیں۔ مثال کے طور پر ایڈورڈ سنوڈن کی شخصیت اور اُس کی سرگرمیوں کو جرمنی اور امریکا مختلف طریقے سے دیکھ رہے ہیں۔ مزید یہ کہ جرمنی ’جاسوسی میں تخفیف کا ایک معاہدہ‘ چاہتا ہے جو امریکا کو منظور نہیں ہے۔ پھر جرمن سرزمین سے امریکی ڈرون آپریشنز کا متنازعہ معاملہ، ٹرانس اٹلانٹک ٹریڈ اینڈ انوسٹمنٹ پارٹنر شپ (ٹی ٹی آئی پی) کا تنازعہ اور سب سے بڑھ کر گوانتانامو کا حراستی کیمپ بھی امریکا اور جرمنی کے تعلقات کی راہ میں شدید مشکلات کا سبب بنا ہوا ہے۔
کشیدگی کی تاریخ
تاریخی اعتبار سے امریکا اور جرمنی کا سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں ایک دوسرے پر انحصار اتنا زیادہ رہا ہے کہ ان دونوں کے باہمی مفادات کبھی بھی انہیں مکمل طور پر ایک دوسرے سے جُدا نہیں ہونے دیں گے۔
جرمن امریکی کشیدگی ایڈورڈ سنوڈن، این ایس اے اور ٹیلی فون کالز کی جاسوسی سے شروع نہیں ہوئی بلکہ اس کی ابتداء 1989/91ء میں سابق سویت یونین کے خاتمے اور دیوار برلن کے گرنے کے ساتھ ہی ہو گئی تھی۔ اُس وقت جرمنی اور امریکا دونوں نے اپنے تعلقات کو نئی بنیادوں پر استوار کیا، سرد جنگ کے بعد اپنی الگ الگ نئی پالیسیاں تشکیل دیں اور مختلف سیاسی ایجنڈا رکھنے کی بناء پر اُن کے راستے الگ الگ ہوتے چلے گئے۔
جرمنی اپنے دوبارہ اتحاد کے بعد براعظم یورپ اور یورپی انضمام کی روح بن گیا جبکہ امریکا نے مغربی یورپ سے مُنہ موڑ لیا اور اپنی تمام تر توجہ اور مفادات کا مرکز نئی مشرقی یورپی ریاستوں کو بنا لیا۔ ساتھ ہی امریکا نے ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی مضبوط تر بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔
آج کل جرمنی اور امریکا کے مابین اپنے باہمی تعلقات کی نئے سرے سے تشریح کرنے کے معاملے پر بحث چل رہی ہے۔ اس بحث میں ان نکات پر زور دیا جا رہا ہے کہ دونوں ملک خود کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، ایک دوسرے کو کیسے دیکھتے ہیں اور کیسے ایک دوسرے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ میرکل کے اس دورے کے دوران بھی اس امر کو مرکزی اہمیت حاصل رہے گی کہ دونوں ملکوں کے مابین اعتماد کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے۔