پشاور کے قریب خود کش حملے میں آٹھ ہلاکتیں
14 مارچ 2014پشاور سے ملنے والی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پولیس کے اعلیٰ افسر محمد فیصل نے بتایا کہ پشاور سے قریب بیس کلو میٹر کے فاصلے پر کیے گئے اس بم حملے میں پینتالیس افراد زخمی بھی ہوئے۔ مرنے والے تمام افراد عام شہری بتائے گئے ہیں جبکہ بیسیوں زخمیوں میں کئی پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں باڑہ سے کچھ ہی دورایک بازار میں کیے گئے اس خود کش بم حملے کے نتیجے میں کئی قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ یہ حملہ ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین عسکریت پسندوں کی قیادت کے ساتھ مشوروں کے لیے شمالی وزیرستان میں ہیں۔ ان مذاکرات کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے کئی ہلاکت خیز حملے کیے جا چکے ہیں۔
پاکستان میں طالبان کی مسلح تحریک کے دوران گزشتہ سات برسوں میں اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔ اس خونریزی کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے طالبان کے مذاکراتی نمائندوں کے ساتھ جو مکالمت شروع کی ہے، وہ ابھی گزشتہ ہفتے ہی بحال ہوئی تھی۔ اس موقع پرحکومتی مذاکراتی نمائندوں نے کہا تھا کہ مذاکراتی عمل ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے والا ہے۔
پاکستانی طالبان کے سب سے بڑے گروپ تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی طرف سے اس بات کی تردید کی جاتی ہے کہ اسلام آباد حکومت کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے بعد سے اس تحریک کے عسکریت پسندوں نے کوئی مسلح حملے کیے ہیں۔ آج کیے جانے والے خود کش بم حملے کے بارے میں نجیب الرحمان نامی سینئر پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے میں حملہ کرنے والا عسکریت پسند پیدل تھا، جس نے سربند نامی گاؤں میں پولیس کی بکتر بند گاڑی کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد کی لال مسجد میں مورچہ بند عسکریت پسندوں کے خلاف 2007ء میں کیے جانے والے فوجی آپریشن اور پھر تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے بعد سے ملک میں عسکریت پسندوں کے خونریز حملوں میں اب تک قریب سات ہزار انسانی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
جنوری کے آخر میں وزیر اعظم نواز شریف نے طالبان کے ساتھ مکالمت کا جو اعلان کیا تھا، اس کے بعد سے اب تک مختلف علاقوں میں عسکریت پسندانہ کارروائیوں اور بم دھماکوں میں بھی 120 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے آج جمعے کے روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ مذاکرات حکومت کے لیے ترجیحی راستہ ہیں لیکن اگر یہ مکالمت کامیاب نہ رہی تو حکومت فوجی آپریشن کا راستہ اپنانے میں دیر نہیں کرے گی۔