پاک افغان تجارتی راہداری پر تنازعہ
8 مئی 2009پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی راہداری کے معاہدے پر نظر ثانی سے متعلق مفاہمتی یادداشت پر واشنگٹن میں کئے گئے دستخطوں اور اس کے نتیجے میں مبینہ طور پر بھارت کے مستفید ہونے ایسی خبروں نے مذکورہ معاہدے کے عمل میں آنے سے قبل ہی اس پر شکوک و شبہات کی چادر تان دی ہے۔
پاکستان میں بعض ماہرین پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پر امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے اس بیان کو بھی خاصا معنی خیز قرار دے رہے جس میں انہوں نے اس معاہدے کو 43 سالہ کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا۔ ان ماہرین کے مطابق یہ ممکنہ معاہدہ تکنیکی طور پر بھارت کو واہگہ بارڈر سے خیبر پاس کے ذریعے افغانستان اور پھر وسطی ایشیاء تک اپنی اشیاء کی ترسیل کی سہولت پہنچائے گا۔
تجزیہ نگار ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق ٹرانزٹ ٹریڈ سے اسمگلنگ کے رجحان کو بھی تقویت ملے گی جس کا براہ راست نقصان پاکستانی صنعت کو پہنچ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو سامان اب سستے داموں مہیا کرتا ہے اگر وہ افغانستان کی طرف جا رہا ہے اور جو حضرات اس میں فراڈ کا عنصر داخل کرنا چاہیں گے وہ وہاں سے سستی چیزیں منگوائیں گے اور پاکستان میں لیک کروا لیں گے اور لوکل مارکیٹ میں بیچ ڈالیں گے جس سے مقامی صنعتکار کو نقصان پہنچے گا۔
دوسری طرف تجارتی راہداری کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایسی تجارت کرنے والے ممالک ہمیشہ فائدے میں رہتے ہیں۔ آریانہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے پروفیسر خادم حسین کے مطابق ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے ذریعے بھارت کو افغانستان تک رسائی ملنے کے نتیجے میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے ذریعے خطے میں امن و استحکام کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ جو بھی پاکستان کی تیار کردہ مصنوعات ہیں ان کہ ہندوستان کی مارکیٹوں میں رعایت یا ٹیرف معاف کروا کے ان کی جگہ پیدا ہونا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسی چیزیں ہیں جن پر رعایت لی جا سکتی ہے اور ان کے خیال میں ہندوستان سے اس تاریخی حساسیت سے اب پاکستان کو نکلنا چاہئے۔
خیال رہے کہ بھارت گزشتہ سات برسوں سے واہگہ سے براستہ پاکستان افغانستان تک آمد و رفت کی اجازت کے لئے کوشاں ہے تاہم بالخصوص پاکستانی عسکری اداروں کے تحفظات کے باعث یہ معاملہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے اور شاید اس حوالے سے ابتدائی بات چیت بھی امریکی رہنمائوں کی موجودگی میں اسی لئے ہوئی تاکہ اس معاملے پر پاکستانی تحفظات کو دور کیا جا سکے۔