1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں طلاق دینے کی نسبت خلع لینےکا عمل پیچیدہ کیوں؟

2 جون 2024

ماہرین کے مطابق عائلی قوانین سے ناواقفیت، ضروری دستاویزات کی عدم موجودگی اور سماجی رکاوٹیں خلع لینے کو مشکل بناتی ہیں۔ تاہم قانونی حلقوں کو امید ہے کہ متعلقہ قانون میں ترمیم اب خلع کے حصول کو سہل بنا دے گی۔

https://p.dw.com/p/4gVfV
سپریم کورٹ کی وکیل حفضہ بخاری کے مطابق اگر کسی  فیملی کورٹ میں 200 کیسز ہیں، تو ان میں سے 80 کیسزخلع کے ہوتے ہیں
سپریم کورٹ کی وکیل حفضہ بخاری کے مطابق اگر کسی فیملی کورٹ میں 200 کیسز ہیں، تو ان میں سے 80 کیسزخلع کے ہوتے ہیںتصویر: fikmik/YAY Images/IMAGO

پاکستان میں رائج قوانین کے مطابق کسی ناکام شادی کا حل مردوں کے لیے طلاق اور عورتوں کے لیے خلع ہے۔ تاہم عام طور پر دیکھا گیا ہےکہ مردوں کو حاصل طلاق کے طریقہ کار پر تو تیزی سے عمل ہو جاتا ہے لیکن خلع کا معاملہ زیادہ تر واقعات میں طویل اور پیچیدہ ثابت ہوتا ہے۔

پاکستان کے شہر راولپنڈی کی رہائشی ارم بتول کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ وہ اب گھر پراپنا ایک ٹیوشن سینٹر چلاتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں بتایا کہ جب انہوں نے اپنی چھ سالہ ناکام شادی کے بعد فیملی کورٹ میں خلع کا کیس دائر کیا، تو آٹھ دن کے اندر اندر ان کے شوہر کو نوٹس چلا گیا۔ اس کے بعد شوہر کی جانب سے جواب آیا اور پھر عدالت نے مصالحت کے لیے ایک تاریخ مقرر کر دی۔ تاہم مصالحت کی یہ کوشش ناکام ہو گئی۔ پھر ایک سال تک یہ کیس چلتا رہا اور آخر کار ارم بتول خلع حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

عائلی قوانین کے ماہر وکلا کے مطابق خلع کے حصول کے لیے خاتون کے پاس نکاح نامے کی نقل ہونا بنیادی ضرورت ہے
عائلی قوانین کے ماہر وکلا کے مطابق خلع کے حصول کے لیے خاتون کے پاس نکاح نامے کی نقل ہونا بنیادی ضرورت ہےتصویر: Nasir Kachroo/NurPhoto/imago images

انہوں نے بتایا، ''میرے شوہراور سسرال والے عجیب شکی مزاج لوگ تھے۔ میں نہ کہیں جا سکتی تھی اور نہ ہی اپنے ماں باپ تک سے فون پر بات کر سکتی تھی۔ وہ ہر وقت مجھے برا بھلا کہتے اور جہیز کی کمی کے طعنے بھی دیتے۔ خلع کے بعد میں اب اپنے گھر پر بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر گزارہ کرتی ہوں لیکن میری زندگی اب پرسکون ہے۔‘‘

خلع کے لیے ضروری دستاویزات

پاکستان میں خلع کے لیے عورت کو جو قانونی جنگ لڑنا پڑتی ہے، اس کے لیے کن دستاویزات کا ہونا لازمی ہے۔ اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے  بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی وکیل  حفظہ بخاری نے بتایا، ''جب کوئی خاتون خلع کے لیے مقدمہ دائر کرتی ہے، تو اسے  فیملی کورٹ میں اپنا نکاح نامہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ نکاح نامے پر ہی تو حق مہر اور دیگر تفصیلات لکھی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں ایک سے ڈیڑھ  ماہ تک کے اندر اندر خلع کی ڈگری  مل سکتی ہے۔ لیکن اگر اس خاتون کے پاس نکاح نامہ نہ ہو، یا اس کا نکاح غیر رجسٹرڈ ہو، تو پھر اس کو عدالت میں دو گواہ پیش کرنا ہوتے ہیں اور اس معاملے کی تکمیل میں چھ ماہ تک بھی لگ سکتے ہیں۔‘‘

عائلی قوانین  کی ماہر حفظہ بخاری نے زور دیتے ہوئے مزید کہا، '' شادی کے بعد خواتین کے پاس شادی کے رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ کی نقل بھی ہونا چاہیے۔ حق مہر کی رقم کی دستاویز ہونا چاہیے۔ اگر سونا دیا جائے، تو اس کی تفصیلات اور رسیدیں مانگیں۔ والدین کی طرف سے جو بھی تحفے اور زیورات آپ کو ملتے ہیں، وہ نکاح نامے میں لکھوائیں اور اپنے شوہر کے شناختی کارڈ کی ایک کاپی بھی اپنے پاس رکھیں۔‘‘

ائلی قوانین  کی ماہر وکیل حفظہ بخاری
ائلی قوانین  کی ماہر وکیل حفظہ بخاریتصویر: Privat

عدالتوں میں خلع کے کیسز کی شرح سے متعلق حفظہ بخاری کا کہنا تھا،  '' اس وقت اگر کسی فیملی کورٹ میں 200 کیسز ہیں، تو ان میں سے 80 کیسز خلع کے ہوتے ہیں۔ ان کی وجوہات میں جذباتی رویہ، ذہنی یا جسمانی طور پر شادی کے لیے تیار نہ ہونا، پابندیاں قبول نہ کرنا، ذہنی ہم آہنگی کا فقدان اور سب سے بڑھ کر معاشی مسائل نمایاں ہیں۔

خلع کے عمل سے جڑی سماجی مشکلات

خواتین کے لیے خلع لینے کے حوالے سے سماجی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ماہر عمرانیات ذوالفقار راؤ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''اس مسئلے کی بنیادی وجہ پدر شاہی معاشرہ ہے۔ ہمارے ہاں مرد کو فوقیت حاصل ہے۔ اس کے پاس مراعات بھی زیادہ ہیں اور اختیارات بھی۔ چونکہ طلاق مرد دیتا ہے، اس لیے یہ آسان ہے۔ وہ جب چاہے غصے میں آ کر یا سزا کے طور پر عورت کو طلاق دے دے۔ وہی عورت جو عموماﹰ معاشی اور سماجی طور پر شوہر پر ہی انحصار کرتی ہے۔ اگر شوہر طلاق دے کر گھر سے نکال دے، تو عورت کو واپس اپنے والدین کے گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ تب اس کے اہل خانہ اور معاشرہ دونوں اس عورت کو ہی قصور وار سمجھتے ہیں۔‘‘

 ماہر عمرانیات ذوالفقار راؤ
ماہر عمرانیات ذوالفقار راؤتصویر: Privat

ذوالفقار راؤ نے مزید کہا کہ اگر کسی عورت کو خلع لینا ہو، تو اسے وکیل کرنا پڑے گا، اپنے خاندان کو منانا پڑے گا۔ کسی گھرانے کی بیٹی شادی کے بعد چاہے جتنا عرصہ بھی بدسلوکی برداشت کر لے، خلع کی بات کرنے پر اکثر اس کے پدر سری نظام ہی کے تابع اہل خانہ بھی یہ سوچ کر اپنی بیٹی کے خلع لینے کے فیصلے کی حمایت نہیں کرتے کہ معاشرہ اس اقدام کو بری نگاہ سے دیکھتا ہے۔

'ترمیم کے بعد قانون میں بہتری‘

عورت فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نعیم احمد مرزا نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ تفصیلی گفتگو میں بتایا کہ خلع کے قانون میں ترمیم سن 2002 میں کی گئی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ طویل عرصے تک چلنے والے کیس زیادہ سے زیادہ چھ ماہ میں مکمل کیے جائیں۔

انہوں نے کہا، ''کیسز کی طوالت کی بنیادی وجہ خلع سے متعلق کئی دیگر کیس بھی ہوتے تھے۔ جیسے نان نفقہ، بچوں کی کفالت اور تحویل وغیرہ۔ پھر سن 2002 میں ان سب کو ملا کر ایک ہی کیس بنا دیا گیا تا کہ کسی بھی درخواست دہندہ کو بار بار عدالتوں کے چکروں اور غیر ضروری اخراجات سے بچایا جا سکے۔ ساتھ ہی فیملی کورٹس کو بھی پابند کر دیا گیا کہ وہ اپنے فیصلے چھ ماہ کے اندر اندر سنا دیا کریں۔‘‘

پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح کیوں بڑھ رہی ہے؟