پاکستان میں سماء ٹی وی چینل کی فروخت زیر بحث
23 نومبر 2021ٹی وی چینل سماء کی خرید کا یہ عمل کچھ ہفتے پہلے عمل میں آیا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سیاست دانوں کو میڈیا ہاوسز کا مالک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس سے رائے عامہ متاثر ہو سکتی ہے اور اس کا اثر انتخابات پر بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ کے خیال میں مالک کوئی بھی ہو کسی بھی ادارے کا ادارتی بورڈ غیر جانبدار ہونا چاہیے۔
میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے خلاف مزاحمت کا اعلان
میڈیا پر جانبداری کے الزامات
پاکستان میں حالیہ برسوں میں مختلف میڈیا ہاوسز پر یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرتے ہیں۔ مثلا پی ٹی آئی کے کئی رہنما جنگ گروپ اور جیو پر یہ الزام لگاتے رہے کہ وہ ن لیگ کے حامی ہیں۔ ن لیگ کی طرف سے سماء چینل اور اے آر وائی نیوز پر پی ٹی آئی نواز ہونے کا الزام لگایا۔
میڈیا اور سیاسی جماعتیں، تاریخی پس منظر
پاکستان کی صحافتی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر توصیف احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پچاس کی دہائی میں جماعت اسلامی نے تسنیم کے نام سے ایک پرچہ نکالا جبکہ پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل ونہار افتخار الدین کی طرف سے نکالے گئے، جن کو اشتراکی خیالات کا سیاست دان سمجھا جاتا تھا۔ ان کے ادارے میں نامور ترقی پسند شعراء اور رہنماؤں نے کام بھی کیا جس میں فیض احمد فیض اور سبط حسن بھی شامل تھے۔ اسی طرح روزنامہ مساوات اور ہفت روزہ نصرت کو پیپلز پارٹی کا حمایتی سمجھا جاتا تھا۔‘‘
تکنیکی ترقی اور ہماری اخلاقی پستی کا سفر
ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی کی دہائی میں روزنامہ امن بھی پیپلز پارٹی کا حامی سمجھا جاتا تھا۔ ''جماعت اسلامی نے جسارت اخبار نکالا جبکہ ہفتہ روزہ تکبیر اور غازی جماعت اسلامی سمیت مختلف مذہبی تنظیموں کے حامی سمجھے جاتے رہے ہیں۔ روزنامہ امن نوے کی دہائی کے بعد ایم کیو ایم کا حامی بن گیا تھا۔‘‘
ایسا نہیں ہونا چاہیے
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ غیر جانبدارانہ صحافت کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا ہاؤس کا کنٹرول یا اس کے مالکان سیاسی جماعت سے نہ ہو۔ یونین کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "دنیا کے جمہوری ممالک میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر آپ اخبار کے مالک ہیں تو آپ چینل نہیں کھول سکتے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ اجازت بھی دی گئی اور زیادہ تر چینلز اخبارات کے مالکان ہی لے کر آئے۔‘‘
حکومتی اقدامات: آزادی اظہار رائے کو کچلنے کے حربے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ اصولی طور پر تو کسی سیاسی شخصیت کو کسی چینل یا میڈیا ہاؤسز کا مالک نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ جمہوری کلچر میں رائے عامہ بہت ضروری ہوتی ہے۔ ناصر زیدی کہتے ہیں کہ،"علیم خان کو چینل نہیں خریدنا چاہئے تھا لیکن اب انہوں نے چینل خرید لیا ہے تو اس بات کی کوشش ہونی چاہیے کہ ادارتی بورڈ غیر جانبدار ہو اور اس میں علیم خان کی بالکل بھی مداخلت نہ ہو۔‘‘
کوئی سیاسی مقاصد نہیں
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما کے اس چینل کو پارٹی پراپیگنڈہ کے لئے استعمال کیا جائے گا، تاہم کچھ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا نے کہا کہ،''علیم خان ایک کاروباری آدمی ہیں اور مارکیٹ میں یہ خبریں گرم ہیں کہ یہ چینل ان کو بہت مناسب دام میں مل گیا ہے، اگر وہ نئے چینل کھولتے تو انہیں اسٹاف بھی مشکل سے ملتا اور مارکیٹ میں جگہ بنانے میں بھی وقت لگتا۔ سماء قومی دھارے کا چینل ہے اور علیم خان کو اس کے لئے وہ محنت نہیں کرنی پڑے گی، جو نئے چینل کے ساتھ کی جاتی ہے۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ سن دوہزار تئیس کے انتخابات کے وقت یہ پتہ چلے گا کہ آیا اس چینل اور سیاست کو کوئی تعلق ہے۔