يورپی مرکزی بينک کے پرانے اور نئے صدر
31 اکتوبر 2011ژاں کلود تريشے يورپی مرکزی بينک کے پہلے صدر ہيں، جنہوں نے اپنے عہدے کی مدت مکمل کی ہے۔ تريشے نے اپنے ابتدائی چار برسوں کے بارے ميں بتاتے ہوئے کہا: ’’ہم نے يورو زون کی مالی نگرانی اپنے پاس رکھنے کے ليے سخت لڑائی لڑی ۔ يورو زون کے تين بڑے ممالک استحکام اور اقتصادی نمو کے معاہدے کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔‘‘
ليکن اس کے بعد مالی اور پھر قرضوں کا بحران شروع ہوگيا۔ يورپی مرکزی بينک کے صدر تريشے کے دور کے آخر ميں يہ بحران چھايا رہا۔ ليکن تريشے کا اس پر يقين ہے کہ مالی طور پر کمزور اور غريب شہريوں کے ليے کرنسی کا استحکام اور مضبوطی اور بھی زيادہ اہم ہے۔ زيادہ تر ماہرين اُن کی اس سوچ کی تعريف کرتے ہيں۔ ’’اگست سن 2007 سے ہم ايک نئی طرح کے بحران کا سامنا کر رہے ہيں۔ اس قسم کی صورتحال دوسری عالمی جنگ کے بعد سے پيدا نہيں ہوئی تھی۔ 66 برسوں کے بعد سے يہ پہلا موقع ہے کہ ايک عالمی بحران کا مرکز ترقی يافتہ ممالک کا مالياتی نظام ہے۔‘‘
جرمنی کے بہت سے ناقدين يورپی مرکزی بينک کی طرف سے پہلے يونان اور پھر دوسرے بحران زدہ يورپی ممالک کے رياستی مالی بانڈزخريدنے کی پاليسی سے اختلاف کرتے ہيں۔ اُن کا کہنا ہے کہ يورپی مرکزی بينک نے خود کو حکومتوں کے آلہء کار کے طور پر استعمال کرايا ہے اور اس نے اپنی آزادی کھو دی ہے۔
تريشے کے جانشين اٹلی کے ماريو دراگی نے بھی يورپی مرکزی بينک کی آزادی کی بات کی ہے، ليکن بعض مالياتی ماہرين کو اس پر بھی شک ہے۔
رپورٹ: بريگٹے شولٹيس / شہاب احمد صديقی
ادارت: عصمت جبيں