وفاقی جرمن فوج میں کئی سالہ اصلاحات کا عبوری میزانیہ
16 مئی 2013جرمنی کی وفاقی فوج میں اہم نکات پر مشتمل دستاویزات کی تیاری، نئے خطوط کے تعین اور منصوبہ بندی کا مرحلہ گزر چکا ہے۔ یہ بات وفاقی جرمن فوج کی عسکری سمت کے نئے تعین سے متعلق ایک ایسی نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے، جو وفاقی وزیر دفاع ٹوماس دے میزیئر نے جمعرات 16 مئی کو برلن میں پارلیمانی ایوان زیریں میں پیش کی۔
یہ رپورٹ 62 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں شعوری طور پر کہا گیا ہے کہ اب مرحلہ فیصلوں پر عملدرآمد کا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ رپورٹ اور اس پر پارلیمانی بحث دراصل اصلاحات کے آغاز کے دو سال بعد اس عمل کا ایک عبوری میزانیہ ہیں۔
مقصد جرمن مسلح افواج کو ایک ’ایکشن آرمی‘ کے تشخص کی منزل تک پہنچانا ہے اور اس دوران وہ تمام تیاریاں کی جائیں گی، جو عسکری خطرات کے بالکل بدلے ہوئے منظر نامے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر ہیں۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے گا کہ اصلاحات کے اس عمل میں ملکی آبادی میں آنے والے تغیر اور موجودہ مالیاتی حالات کے پس منظر میں کس طرح کے فیصلے درکار ہیں؟
وفاقی جمہوریہ جرمنی کی عسکری تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تو 2011ء میں ہی ہو گیا تھا۔ تب یکم جولائی سے نوجوانوں کی محدود مدت کے لیے لازمی فوجی سروس کا قانون عملی طور پر ختم ہو گیا تھا۔ یہ ایک ایسا ابتدائی سنگ میل تھا، جس کا تعین پیشہ ور فوج کے حصول کی منزل تک پہنچنے کے لیے کیا گیا تھا۔ آج قریب دو سال بعد وفاقی وزیر دفاع دے میزیئر نے اصلاحات کے اس عمل کا جو عبوری میزانیہ پیش کیا، اس میں حیرانی کا باعث بننے والے عناصر زیادہ نہیں ہیں۔
ٹوماس دے میزیئر کے بقول جرمنی میں شرح پیدائش چونکہ کافی عرصے سے خاصی کم ہے، اس لیے مستقبل میں وفاقی فوج میں رضاکارانہ بنیادوں پر لیکن پیشہ ور سپاہیوں کے طور پر بھرتی کے لیے نوجوانوں کی کافی تعداد میسر نہیں ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے وفاقی فوج کو ایک آجر کے طور پر زیادہ سے زیادہ پرکشش بنانا ہو گا۔
دے میزیئر نے ابھی حال ہی میں اپنی جماعت CDU کے ساتھیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جرمنی فوجی حوالے سے ’کبھی بھی اتنا اچھا نہیں ہو سکتا جتنا کہ دوسرے ممالک۔ لیکن ہمیں ہر حال میں اپنی موجودہ حالت کو بہتر بنانا ہو گا‘۔
اس سلسلے میں وفاقی وزیر دفاع پیشہ ور فوجیوں کے طور پر خدمات کو فوج کے ارکان کی خاندانی زندگی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ بنانا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ فیصلہ بھی بڑا اہم ہے کہ فوجیوں کی ڈیوٹی اور رہائش کی جگہ پر ان کے چھوٹے بچوں کے لیے کافی تعداد میں کنڈر گارٹن بھی موجود ہوں۔
اصلاحات کے اس عمل کے نتیجے میں مستقبل میں اس دفاعی ادارے کے فوجی اور سول ملازمین کی تعداد اس حد تک کم کر دی جائے گی کہ وہ دو لاکھ 40 ہزار سے متجاوز نہ ہو۔ یہ اس لیے ایک بڑا فیصلہ ہے کہ اب تو صرف فوجی عملے کی تعداد ہی دو لاکھ 40 ہزار سے زیادہ ہے، جو اصلاحات کے عمل کی تکمیل کے بعد زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ 80 ہزار رہ جائے گی۔
اس دوران جرمن فوج کی جو 31 چھاؤنیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ان میں سے چند ایک تو ختم کی بھی جا چکی ہیں۔ اس کے علاوہ باقی ماندہ چھاؤنیوں میں سے 90 کو چھوٹا کرنے کے فیصلے پر بھی تسلی بخش رفتار سے عملدرآمد جاری ہے۔
یہ امر بھی عسکری اصلاحات کے عمل کا ایک حصہ ہے کہ وفاقی جرمن فوج کے بین الاقوامی سطح پر فرائض انجام دینے والے مسلح یونٹ آئندہ اپنے سائز میں چھوٹے اور زیادہ لچکدار ہوں۔ یوں جرمنی میں ایک ایسی پیشہ ور فوج تشکیل دی جا سکے گی، جو دفاعی فوج ہونے کے ساتھ ساتھ عسکری مداخلت کی صلاحیت بھی رکھتی ہو گی۔ مستقبل کے یہ جرمن فوجی نیٹو کے سریع الحرکت دستوں میں بھی شامل کیے جا سکیں گے اور یورپی یونین کے جنگی دستوں کے طور پر بھی فرائض انجام دے سکیں گے۔
اگر ڈیفنس اور سکیورٹی پالیسی کے موجودہ تقاضوں میں آئندہ چند برسوں میں کوئی بنیادی تبدیلیاں نہ آئیں، تو اب تک کے اندازوں کے مطابق وفاقی جرمن فوج کی عسکری صلاحیتوں اور ترجیحات کی نئی سمت کے تعین کا عمل 2017ء کے بعد پورا ہو جائے گا۔
R. Fuchs, mm / A.Lueg, aa