نیٹو کا افغان مشن، ڈوئچے ویلے کا تجزیہ
17 اکتوبر 2013افغانستان کا موجودہ منظر نامہ مسلسل مزاحمت پر مائل باغیانہ سرگرمیوں، کرپشن کےمسلسل بڑھتے عمل اور کمزور مرکزی حکومت سے عبارت ہے۔ افغان عوام ابھی سے امن و سلامتی کی صورتحال مزید خراب ہونے کا اندیشہ لگائے ہوئے ہیں۔ نیٹو کے مشن پر تنقید کرتے ہوئے افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ نیٹو کے فوجی آپریشنز سے افغان عوام کو دکھ درد ملنے اور زندگیوں کے ضیاع کے علاوہ اور کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکا کیونکہ کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ مبصرین کے مطابق نیٹو کے ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط اس آپریشن پر یہ ایک انتہائی سخت تبصرہ ہے۔
حامد کرزئی کے تبصرے کو مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن نے فوری طور پر رد کرتے ہوئے کہا کہ جنگ زدہ ملک افغانستان میں نیٹو مشن نے قابل تعریف تبدیلیاں لانے میں کامیابی حاصل کی اور اس دوران افغان عوام کے اعتماد کی بحالی، وسائل کے استعمال اور اداروں میں بے مثال سرمایہ کاری کی گئی۔ راسموسن کا مزید کہنا تھا کہ کوئی بھی ان کوششوں سے انکار نہیں کر سکتا۔
افغانستان میں نیٹو کے آئی سیف مشن کا بنیادی مقصد افغان حکومت کو مناسب سکیورٹی اور استحکام فراہم کرنا تھا۔ اس کے علاوہ اس جنگ زدہ ملک کے لیے ایک تربیت یافتہ فوج کی تشکیل بھی ہے تا کہ وہ ملکی سکیورٹی کی ذمہ داریوں کو سنبھال سکے۔ اب انخلاء میں بارہ تیرہ مہینے باقی بچے ہیں اور ان مقاصد کے حوالے سے تجزیہ کاروں کی متضاد آراء ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ افغان فوج کھڑی ضرور کر دی گئی ہے لیکن وہ کابل حکومت کو توانا کرنے سے قاصر ہے۔ واشنگٹن کے ُووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر کے جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کُوگلمین کا کہنا ہے کہ بظاہر طالبان اقتدار میں نہیں لیکن حکومت کے لیے بدستور ایک خطرہ ہیں اور کئی علاقوں پر عملاً ان کی عملداری ہے۔
گزشتہ بارہ برسوں سے افغانستان میں جاری نیٹو کے مشن کے حوالے سے یہ بات یقینی ہے کہ بین الاقوامی برادری نے اس مشن کے لیے ایک بہت بڑی قیمت چکائی ہے۔ امریکہ کے بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے اعداد شمار کے مطابق اس عرصے میں 33 سو غیر ملکی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی۔ ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد دو ہزار 156 ہے۔ اس جنگ پر اب تک آنے والی لاگت 660 ارب امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ افغان حکومت اور فوج کو آلات کی فراہمی اور تربیت پر 56 ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کے مطابق افغان تنازعے کا سب سے زیادہ شکار عام سویلین آبادی ہوئی ہے۔ ادارے کے مطابق عسکریت پسندوں اور افغان و غیر ملکی فوج کے حملوں کا نشانہ بھی تواتر سے سویلین بنتے رہے ہیں۔ خاص طور پر طالبان نے شک و شبے کی بنیاد پر عام شہریوں کو ہلاک کرنے سے گریز نہیں کیا۔
ماہرین اس پر متفق ہیں کہ افغانستان میں سکیورٹی کے بعض پہلوؤں میں اضافہ حوصلہ افزا ہے۔ مالی اور ترقیاتی امداد سے کئی شعبوں میں خاطر خواہ ترقی سامنے آئی ہے۔ ترقیاتی سیکٹر میں دی جانے والی بین الاقوامی امداد سے خاص طور پر لاکھوں افغانیوں کی عام زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں محسوس کی اور دیکھی جا سکتی ہیں۔ کئی ملین بچوں کو اسکول میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ اسی طرح خواتین کی مجموعی حالت میں بہتری کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے اور پسماندہ افغان خواتین کو پارلیمان میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ افغانستان دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے لیکن اب اُس کی مجموعی قومی پیداوار بارہ سال پہلے کے مقابلے میں بہتر ریکارڈ گئی ہے۔