نائجیریا کے دارالحکومت کے نواح میں خوفناک بم دھماکے، 71 ہلاک
14 اپریل 2014دارالحکومت ابوجہ میں گزشتہ دو برسوں میں ہونے والے ان خوفناک ترین بم دھماکوں کے بارے میں یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ خود کش تھے یا انہیں وہاں نصب کیا گیا تھا۔ دھماکے کے وقت بے شمار مسافر اپنے روزگار کے مقام کی جانب روانہ ہونے والی بسوں میں سوار ہو رہے تھے۔ دھماکوں سے کم از کم تیس بسیں تباہ ہو گئیں۔ عینی شاہدین کے مطابق پورے بس اڈے میں انسانی خون اور اعضاء بکھرے ہوئے تھے۔ مقامی سکیورٹی اہلکاروں نے فوری طور پر اس بم دھماکے میں اسلام پسند تنظیم بوکو حرام کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔
بم دھماکے کا مقام ابوجا شہر سے سولہ کلو میٹر کی دوری پر واقع نیانیا موٹر پارک (Nyanya Motor Park) تھا۔ ابوجا کی پولیس نے بم دھماکوں میں ہلاکتوں کی تعداد 71 اور زخمیوں کی 124 بتائی ہے۔ پولیس کے ترجمان فرینک مبا (Frank Mba) نے میڈیا کو بتایا کہ زخمیوں کو ہنگامی بنیادوں پر علاج کی سہولت دی جا رہی ہے۔ اس سے قبل مختلف ذرائع ہلاکتوں کی تعداد 35 بتا رہے تھے جبکہ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے مقامی ذرائع کے حوالے سے ہلاک شدگان کی تعداد دو سو تک بھی بتائی تھی۔
ابھی کل اتوار کے روز نائجیریا کی شمال مشرقی شورش زدہ ریاست بورنو میں انتہا پسند تنظیم بوکو حرام کے مشتبہ جہادیوں نے کم از کم ساٹھ افراد کو ہلاک کر دیا۔ یہ ہلاکتیں نائجیریا کے ہمسایہ ملک کیمرون کی سرحد کے قریب ہوئیں۔ بورنو کے ضلع باما کے انتظامی سربراہ بابا شیہو گولومبا (Baba Shehu Gulumba) نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آور یقینی طور پر بوکو حرام سے تعلق رکھتے تھے۔ انتظامی سربراہ کے مطابق اتوار کی صبح آمچاکا اور قریبی دیہات پر حملے کرتے ہوئے حملہ آوروں نے گھروں پر دیسی ساختہ بم پھینکے اور انہیں آگ لگا دی۔ گولومبا کے مطابق بعد میں حملہ آوروں نے بھاگتے ہوئے افراد پراندھا دھند فائرنگ کی اور اس طرح اس ساری کارروائی کے نتیجے میں ساٹھ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ گورنر گولومبا نے یہ بھی بتایا کہ حملہ آور آمچاکا اور باما کے قریبی دیہات تک ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں کے علاوہ دو بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے پہنچے تھے۔
دو سال قبل نائجیریا کے دارالحکومت ابوجہ میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر میں کیے گئے بوکو حرام کے ایک بم حملے میں اکیس افراد ہلاک اور ساٹھ سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ رواں برس بوکوحرام کے مختلف دہشت گردانہ حملوں میں پندرہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔