1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائجیریا میں سلسلے وار دھماکوں میں پندرہ شہری ہلاک

شادی خان سیف30 جولائی 2013

نائجیریا کے شمالی شہر کانو میں سلسلے وار بم دھماکوں نے کم از کم 15 افراد کی جان لے لی ہے۔ افریقہ کا سب سے زیادہ آبادی والا یہ ملک ایک عرصے سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔

https://p.dw.com/p/19Gs2
تصویر: picture alliance/AP Photo

عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے سلسلے وار دھماکوں کی آوازیں سننے کے بعد کئی لاشیں دیکھیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ بم حملے شمالی نائجیریا کے شہر کانو کے علاقے سابون گاری میں کیے گئے جہاں زیادہ تر مسیحی اقلیتی باشندے آباد ہیں۔ واضح رہے کہ نائجیریا کی قریب نصف آبادی مسلمان ہے جس کی اکثریت ملک کے شمالی حصے میں رہتی ہے جبکہ باقی نصف کے قریب آبادی مسیحی باشندوں کی ہے جن کی اکثریت جنوبی علاقوں میں رہتی ہے۔ تازہ ترین بم دھماکوں سے متاثرہ شہر کانو میں کافی عرصے سے شدت پسند مسلمانوں کی ممنوعہ تنظیم بوکو حرام کافی فعال ہے۔

نائجیریا کی فوج کے ترجمان ایکےدیچی ایویھا Ikedichi Iweha نے تسلیم کیا کہ شہر میں بم دھماکے ہوئے ہیں تاہم انہوں نے ہلاکتوں کے سلسلے میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ مقامی پولیس ذرائع نے البتہ ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔

ایک مقامی تاجر امیکا مائیک نے خبر رساں ادارے روئٹرز‍ کو بتایا کہ اس نے انوگو نامی سڑک اور شہر کے فاریسٹ ولا نامی ہسپتال کے پاس دو زور دار دھماکے سنے، جن کے بعد دھماکے کی جگہوں پر کئی لاشیں بکھری دیکھی گئیں۔ فوج کی جانب سے یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ اس حملے کے پیچھے کون سے عناصر یا گروپ کار فرما ہیں یا ہو سکتے ہیں۔

18.03.2013 DW online Karte Nigeria Kano eng

روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق بوکو حرام نے رواں برس مارچ میں کانو کے علاقے سابون گاری ہی میں اسی طرز کا ایک بم حملہ کر کے کم از کم 25 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ بوکو حرام نامی مسلح گروپ ملک کے شمال مشرقی حصے میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے گزشتہ قریب چار برس سے مسلح کارروائیاں کر رہا ہے۔ بوکو حرام کے معنی ’مغربی تعلیم ممنوع‘ کے ہیں اور یہ تنظیم 160 ملین کی آبادی والے اس کثیر المذہبی ملک میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اکثر اسکولوں کو بھی نشانہ بناتی ہے۔

رواں برس مئی سے اس عسکریت پسند تنظیم کے خلاف ایک خصوصی فوجی آپریشن کیا جارہا ہے، جس کے باعث عسکریت پسند اپنے سابقہ محفوظ ٹھکانوں سے فرار ہوکر مختلف علاقوں میں پھیل گئے ہیں۔سکیورٹی ذرائع خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ عسکریت پسند اب شمالی نائجیریا کے دیگر علاقوں میں پھیل کر وہاں بھی کارروائیاں کر سکتے ہیں۔

روئٹرز کے مطابق بوکو حرام کی کارروائیوں میں اب محض سکیورٹی دستوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ اب زیادہ سے زیادہ سویلین بھی اس شدت پسند تنظیم کے ہدف پر ہیں۔ اس کی ایک مثال کے طور پر چار اسکولوں پر کیے گئے ان حالیہ حملوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جن میں متعدد بچوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ گزشتہ ماہ ملک کے شمال مشرق میں ایک دور دراز گاؤں میں کیے گئے حملے میں بھی 20 شہری مارے گئے تھے۔