مہاجرین کو یورپ میں محدود پناہ ملنا چاہیے، دلائی لامہ
31 مئی 2016
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے دلائی لامہ کے ایک حالیہ انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ مہاجرین کو آخر کار اپنے آبائی وطنوں کو لوٹ جانا چاہیے تاکہ وہ واپس جا کر ملکی تعمیر نو اور ترقی میں اپنا حصہ ادا کر سکیں۔
دلائی لامہ نے کہا، ’’جب ہم کسی مہاجر کو دیکھتے ہیں، بالخصوص کسی خاتون یا بچے کو تو مہاجرت کے حقیقی دکھ کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘ دلائی لامہ خود نصف صدی سے جلا وطنی کی زندگی بسر کرتے ہوئے بھارت میں پناہ گزین ہیں۔
اسّی سالہ دلائی لامہ کا مزید کہنا تھا کہ ایسے افراد جو اچھے حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ خوش قمست ہیں اور یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ مہاجرین کا موجودہ بحران شدید تر ہو چکا ہے اور بے گھر لوگوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔
جرمن اخبار ’فرنکفرٹر الگمائنے سائٹنگ‘ سے گفتگو میں دلائی لامہ کا یہ بھی کہنا تھا، ’’مثال کے طور پر جرمنی ایک عرب ریاست نہیں بن سکتا۔‘‘ مسکراتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ ‘جرمنی تو جرمنی ہے‘۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے، جس سے انتظامی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
دلائی لامہ کا کہنا تھا کہ اخلاقی طور پر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان مہاجرین کو صرف عارضی طور پر پناہ دی جانا چاہیے، ’’مقصد یہ ہونا چاہیے کہ بعد ازاں یہ مہاجرین اپنے اپنے ممالک واپس جائیں اور وہاں تعمیر نو کے کاموں میں حصہ لیں۔‘‘
گزشتہ برس جرمنی میں 1.1 ملین مہاجرین اور تارکین وطن پناہ حاصل کرنے کے لیے آئے تھے۔ ان مہاجرین میں مشرق وسطیٰ کے شورش زدہ ملکوں شام اور عراق کے شہریوں کے علاوہ افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک کے باشندے بھی شامل تھے۔
دلائی لامہ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ اپنے آبائی وطن تبت جانا چاہتے ہیں، ’’اگر میری واپسی کی کوئی امید پیدا ہوئی تو شائد کچھ سالوں بعد میں تبت جاؤں گا۔ کم ازکم ایک چھوٹے سے دورے کے طور پر بھی، یہ میرے لیے خوشی کا باعث ہو گا۔‘‘