موصل جلد آزاد کرا لیا جائے گا، عراقی وزیر اعظم
6 نومبر 2016خبر رساں ادارے روئٹرز نے عراقی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ عراقی فورسز نے موصل کے جنوب میں واقع جنگجوؤں کو اُن کے ایک اہم ٹھکانے سے پسپا کر دیا ہے جبکہ اب یہ فورسز موصل کے ہوائی اڈے کے چند کلو میٹر دور تک رسائی حاصل کر چکی ہیں۔
موصل اب بیس کلومیٹر دور، عراقی فوج کی پیش قدمی جاری
موصل میں داعش کے خلاف مربوط فوجی آپریشن کا آغاز
موصل سے داعش کو نکالنے کے لیے آپریشن کا آغاز
ناقدین کے مطابق اگر موصل میں جنگجوؤں کو مکمل پسپا کر دیا گیا تو عراق میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی نام نہاد ’خلافت‘ کو ایک بڑا دھچکا لگے گا۔ یہ جنگجو گروہ عراق کے علاوہ شام کے ایک بڑے حصے پر بھی قابض ہے۔ داعش کے جنگجو سن 2014 سے موصل پر قبضہ کیے ہوئے ہیں۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے موصل شہر کے مشرق میں واقع حکومتی فورسز کے اہم محاذ کے دورے کے دوران کہا کہ اگر جنگجو زندہ رہنا چاہتے ہیں تو وہ ہتھیار پھینک دیں۔ عراقی سرکاری میڈیا کے مطابق العبادی نے اس عزم کا اظہار بھی کیا، ’’حکومتی فورسز نہ تو پیچھے ہٹیں گی اور نہ ہی ہمت ہاریں گی۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ عراقی فورسز کو مقامی جنگجو ملیشیا گروہوں کے علاوہ امریکی فضائیہ کی مدد بھی حاصل ہے۔ بغداد حکومت نے نینوا کے دارالحکومت کی بازیابی کے لیے بڑا عسکری آپریشن سترہ اکتوبر کو شروع کیا تھا۔ حکومتی فورسز نے اس وقت موصل شہر کو چاروں اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ داعش کے جہادیوں نے اس محاصرے کو توڑنے کی خاطر کئی حملے کیے لیکن وہ تمام ناکام بنائے جا چکے ہیں۔
عراقی وزیر اعظم نے کہا کہ وہ موصل شہر کے تمام رہائشیوں کو آزاد کرا لیں گے۔ صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے العبادی کا کہنا تھا، ’’داعش کے جنگجوؤں کے لیے میرا پیغام صرف یہی ہے کہ اگر وہ اپنی جان بچانا چاہتے ہیں تو وہ اسی وقت ہتھیار پھینک دیں۔‘‘
اقوام متحدہ نے خبردار کر رکھا ہے کہ موصل کی بازیابی کے لیے جاری جنگی کارروائیوں کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بے گھر ہو سکتی ہے۔ تاہم تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ابھی تک صرف اکتیس ہزار افراد ہی بے گھر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ترجمان لیسی سوِنگ نے روئٹرز کو بتایا، ’’ ہمارا اندازہ تھا کہ اس عسکری کارروائی کی وجہ سے پانچ تا سات لاکھ افراد بے گھر ہو سکتے ہیں لیکن ابھی تک یہ تعداد ہماری توقعات سے انتہائی کم رہی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ کوشش میں ہیں کہ اس تنازعے کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی ہر ممکن مدد کی جا سکے۔