منفی تیس ڈگری: افغانستان شدید سردی کی لپیٹ میں
افغانستان میں انسانی حوالے سے صورتحال پہلے ہی تباہ کن ہے، اور اب سردی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور ہلاکتوں کا سبب بن رہی ہے۔
کابل برف سے ڈھکا ہوا
افغان دارالحکومت کابل کا نظارہ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف جنوری میں ہی شدید موسمی حالات کی وجہ سے 166 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جلانے کے لیے لکڑی کی بجائے پلاسٹک
منفی درجہ حرارت میں جلا کر آگ پیدا کرنے کے لیے ایک لڑکا پلاسٹک کے بچ جانے والے تھیلے لیے جا رہا ہے کیونکہ لکڑی کی کمی ہے۔ طالبان حکومت پر پابندیوں کی وجہ سے معاشی صورتحال تباہ حال ہے۔ ملک کی ہنگامی حالات سے نمٹنے والی وزارت کے مطابق 80 ہزار سے زیادہ مویشی ہلاک ہو چُکے ہیں۔ یہ جانور بہت سے افغانوں کے لیے خوراک اور آمدنی کا ایک اہم ذریعہ تھے۔
گرمائش کے حصول کے لیے جسمانی سرگرمی
لڑکے اور مرد کرکٹ کے کھیل سے کچھ گرمائش حاصل کرتے ہیں۔ افغانستان میں سخت سردیاں معمول کی بات ہے لیکن صوبہ غور میں منفی 33 ڈگری درجہ حرارت، معمول سے ہٹ کر ہے۔ ماہرین موسمیات کے مطابق آنے والے دنوں میں درجہ حرارت مزید گر سکتا ہے۔
سب ایک ہی چھت کے نیچے
فیملی کے سربراہ عاشور علی اپنے بچوں کے ساتھ کابل میں ایک گھر میں سردی سے بچنے کے لیے کمبل کے نیچے۔ شدید مشکلات کے شکار ملک افغانستان کو بین الاقوامی امداد نہیں مل رہی ہیں۔ 30 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ طالبان کی جانب سے افغان خواتین پر این جی اوز کے لیے کام کرنے پر پابندی کے بعد کئی تنظیموں افغانستان میں اپنا کام معطل کر چُکی ہیں۔
امداد کی شدید کمی
کابل کی برف سے ڈھکی گلی میں ایک چھوٹی بچی پانی کے برتن اٹھائے ہوئے ہے۔ کئی مقامات پر پانی کے پائپ جم گئے ہیں۔ بہت سے خاندانوں کے پاس حرارتی نظام تک نہیں ہے اور وہ صرف گرم کپڑے پہن سکتے ہیں اور رات کو جسم گرم رکھنے کے لیے موٹے کمبل استعمال کرتے ہیں۔ جرمن سفارت کاروں کے مطابق، طالبان کے لیے آخرکار اپنی حالیہ پابندیوں پر نظر ثانی کا وقت آ گیا ہے۔