1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مرسی کی معذولی سے اسلام پسندوں کے اندر اضطراب بڑھتا ہوا

22 جولائی 2013

سب سے بڑا مسئلہ محمد مرسی نہیں ہیں بلکہ اسلامی تحریکوں، میڈیا، عدلیہ اور فنکاروں کے گروپوں کے مابین پایا جانے والا تنازعہ ہے جو ایک سویلین ریاست کے خواہاں تھے۔

https://p.dw.com/p/19BvZ
تصویر: Reuters

فوج کی طرف سے مصری صدر محمد مرسی کو برطرف کیے جانے سے چند روز پہلے مصر کے سماجی اور مذہبی اعتبار سے قدامت پسند تصور کیے جانے والے شہروں میں مرسی کے خلاف جس پیمانے پر مظاہرے ہو رہے تھے وہ بہت سے لوگوں کے لیے حیرت کا باعث تھے۔

ان مظاہروں میں بڑی تعداد میں اور ہر عمر کے مردوں اور خواتین نے حصہ لیا۔ جسے بہت سے افراد ایک واضح نشانی تصور کر رہے ہیں اس امر کی کہ ملک کی مجموعی صورتحال اور خاص طور پر گزشتہ کچھ عرصے سے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔

سب سے بڑا مسئلہ محمد مرسی نہیں ہیں بلکہ اسلامی تحریکوں، میڈیا، عدلیہ اور فنکاروں کے گروپوں کے مابین پایا جانے والا تنازعہ ہے جو ایک سویلین ریاست کے خواہاں تھے۔ یہ اصطلاح مصر میں بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں سیکولر ہونا توہین آمیز سمجھا جاتا ہے۔

Proteste in Ägypten
مصر میں رمضان کے ماہ میں بھی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہےتصویر: Getty ImagesAFP/Gianluigi Guercia

مصر کے عوام کا اپنے لیڈروں پر سے اعتماد اس لیے نہیں اٹھتا جا رہا ہے کہ انہیں لیڈروں سے کوئی نظریاتی اختلاف ہے۔ مثال کے طور پر اس ملک میں عیسائی صدیوں سے مسلمانوں کے ساتھ رہ رہے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ اسلامی تحریکیں یہاں کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے۔ ایک مصری شہری لوقا کے بقول،" مصری باشندے فطری طور پر نیک ہیں۔ مسلمان ہوں یا عیسائی۔ جب وہ اپنے لیڈروں کو معاشرے کی ترقی کے لیے کام کرتا دیکھیں گے تو وہ خود بخود اُن کی طرف کھنچے جائیں گے۔ مگر اگر ان کے رہنما ان کی توقعات کو ٹھیس پہنچائیں گے تویقیناﹰ عوام کو شدید صدمہ ہوگا"۔

اس وقت اخوان المسلمون پسپائی کا شکار نظر آ رہی ہے۔ ان کے سینیئر رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کے حامی ٹیلی وژن چینلز بند کر دیے گئے ہیں اور حکومتی میڈیا اپنی پُرانے روش پر واپس آتے ہوئے مسلسل اخوان المسلمون کی مذمت کرنے اور اس کی خراب شکال پیش کرنے میں مصروف ہے۔

مصری علاقے اسیوط کے مقامی باشندوں کے لیے یہ امر ناقابل تصور ہے کہ اگر مرسی دوبارہ بحیثیت صدر باحال نہ ہوئے تو اس گروپ کا کیا ہوگا۔ اخوان المسلمون کے ایک مقامی ترجمان اشرف حسین سے جب یہ سوال کیا گیا کہ مرسی کی بحالی نہ ہوئی تو کیا ہوگا، تو انہوں نے اسے بڑی ہتک سمجھا۔ اشرف حسین نے کہا،" کس نے کہا کہ وہ نہیں آئیں گے، وہ ضرور واپس آئیں گے، لوگوں کی یہی خواہش ہے۔ مصری باشندے انقلاب کا فائدہ دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ سڑکوں پر نکل رہے ہیں"۔

Adli Mansour Catherine Ashton Kairo Ägypten
مصر کا بحران عاالمی سفارتکاروں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

اشرف حسین نے اخوان المسلمون کی 85 سالہ تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آمرانہ حکومت کے خلاف ڈٹ جانے اور عوامی خدمات لوگ بھولے نہیں ہیں۔ اب اخوان المسلمون کے خلاف سازش اور ان کی راہ میں جیسے جیسے رکاوٹیں بڑھیں گے ویسے ویسے اس گروپ کی عوامی شہرت میں اضافہ ہوگا۔

تاہم اخوان المسلمون کے چند حامی معتدل جذبات رکھتے ہیں۔ جیسے کہ محمد اشکالانی، ایک 63 سالہ حامی اور اخوان المسلمون پارٹی کے رکن اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ مرسی کی واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ ان کا ذاتی خیال ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ اس اسلامی پارٹی کو مرسی کی واپسی کے امکانات سے قطع نظر انتخابات میں ضرور حصہ لینا چاہیے۔