1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مایوس کن خاتمہ نا ختم ہونے والی مصیبت سے بہتر ہے: جرمن وزیر دفاع

Kishwar Mustafa21 مئی 2013

جرمن فوج کے ناکام ہو جانے والے ڈرون پروجیکٹ ’یورو ہاک‘ کو نہ صرف غیر معمولی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بلکہ یہ موضوع وفاقی جرمن وزیر دفاع تھوماس ڈے میزیئر کے لیے سنگین اثرات کا سبب بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/18bWz
تصویر: dapd

پارلیمان میں ماحول پسند گرین پارٹی نے جرمن وزیر کوآڑے ہاتھوں لیا ہے۔ جرمن وزیر دفاع تھوماس ڈے میزیئر نے ابھی حال ہی میں پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے اپنی فوج میں ہونے والی اصلاحات پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ یقین دلایا تھا کہ رواں سال کے اواخر تک اس ادارے میں نئے تنظیمی عناصر میں سے نصف کام کرنا شروع کر دیں گے۔ تاہم جرمن وزیر کے یہ بیانات ماحول پسندوں کی گرین پارٹی اور بائیں بازو کی جماعت ڈی لِنکے کی توجہ کو ناکام ہو جانے والے ڈرون پروجیکٹ ’یورو ہاک‘ کی طرف سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے اس قسم کے تجربے کیوں کیے گئے۔

بائیں بازو کی جماعت ڈی لنکے کے پارلیمانی دھڑے کے سربراہ گریگور گیسی کے بقول،’ ہم نے ایک تجرباتی مشین کو امریکا سے منگوایا اور اس کے لیے 500 ملین یورو کی خطیر رقم خرچ کی۔ اس کے علاوہ اس پورے تحقیقی مرحلے پر مزید سینکڑوں ملین یورو سرف ہوئے۔ یہ سب کس لیے کیا گیا۔ بالکل فضول میں‘۔

Thomas de Maiziere Kauf Drohne Euro Hawk Archivbild 2011
جرمن وزیر دفاع یورو ہاک کے ایک ماڈل کا معائنہ کرتے ہوئےتصویر: Reuters

موجودہ مخلوط حکومت کے لیے یہ ڈرون پروجیکٹ سنگین نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ مخلوط حکومت میں شامل پارٹنر جماعت فری ڈیمو کریٹک پارٹی ایف پی ڈی نے بھی اس سلسلے میں کی جانے والی کارروائی پر تنقید کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی ایس پی ڈی کے پارلیمانی دھڑے کے سیاستدان ہانس پیٹر بارٹلز نے اس تمام عمل کو ناقابل فہم قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں،’یہ ایک اسکینڈل ہے۔ یہ سب ممکن کیسے ہوا کہ جرمن سرکاری ادارے کی دستاویزات فیڈرل اکاؤنٹس آفس کی نگرانی کے لیے نہیں پیش کی گئیں‘۔

ڈرون پروجیکٹ ’یورو ہاک‘ کے ناقد اپوزیشن کے چند قانون سازوں نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس سارے عمل میں حکومت پارلیمان کی آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی ہے اور اس پروجیکٹ کے مبہم ہونے کے باوجود اسے جاری رکھے رہی ہے۔

FILE - The drone 'Euro Hawk' stands on the airfield of the reconnaissance squadron 51 'Immelmann' in Jagel, Germany, 8 July 2010. EPA/ANGELIKA WARMUTH (zu dpa-Korr: ««Euro Hawk»-Flop: Keiner will es gewesen sein» vom 15.05.2013) +++(c) dpa - Bildfunk+++
40 میٹر طویل اور 14 ٹن وزنی پروں والے یورو ہاک ڈرونتصویر: picture-alliance/dpa

40 میٹر طویل اور 14 ٹن وزنی پروں والے یورو ہاک ڈرون طیارے کی منظوری یورپی ایوی ایشن اتھارٹی کی طرف سے نہ ملنے کے بعد جرمن وزارت دفاع کا امریکی ڈرون کے حصول کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ یورو ہاک تیار کرنے والوں کو بعد میں اس امر کا ادراک ہوا کہ وہ یورپی ہوائی حدود کی سلامتی کے ادارے کو یہ یقین نہیں دلا سکیں گے کہ سویلین ائر لائنس کی فضائی حدود کو ان کے ڈرون طیاروں کے استعمال سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس سلسلے میں سلامتی کے حوالے سے کوئی دستاویزات نہیں پیش کی جا سکتیں۔

دریں اثناء جرمن وزیر دفاع نے پارلیمان کے سامنے اس امر کا اقرار کیا کہ ’یورو ہاک‘ پر آنے والے اخراجات اب برداشت سے باہر ہوتے جارہے ہیں اور اس پروجیکٹ کو روک دیا گیا ہے۔ تھوماس ڈے میزیئر کے بقول،’ ایک مایوس کُن خاتمہ نا ختم ہونے والی مصیبت سے کہیں بہتر ہے‘۔

km/ai(dpa)