’لڑکیاں ذہنی نہیں جسمانی طور پر بھی طاقت ور ‘
7 مارچ 2018اس وقت پرہیز کا وزن 120 کلو گرام تھا۔ اب اس کا وزن 82 کلوگرام ہوگیا ہے۔ اس کی ایک سو کلو وزن اٹھانے کی صلاحیت نے اس تین بچوں کی ماں کو کئی ایوارڈز جیتنے میں مدد دی ہے۔ پرہیز نے قومی اور مقامی مقابلوں میں جیتے گئے ایوارڈز کو ایک پلاسٹک کے لفافے میں سنبھالا ہوا ہے۔ اس کی 22 سالہ بیٹی لیما کا کہنا ہے،’’ ہم ان کی صفائی کرنے میں بہت سست ہیں اس لیے انہیں دیوار پر نہیں سجایا ہوا۔‘‘
ایک ہفتے کے دوران کئی مرتبہ افغانستان کی خواتین کی ویٹ لفٹنگ ٹیم ایک چھوٹے سے کمرے میں جمع ہوتی ہے جہاں وہ اپنے برقعے اتار کر ٹریک سوٹ میں وزن اٹھانے کی پریکٹس کرتی ہیں۔
افغان اولمپک کمیٹی نے سات سال قبل اس فیڈیریشن کا آغاز کیا لیکن یہ خواتین کو اس کھیل کی طرف راغب کرنے میں اتنا کامیاب نہیں ہو سکی۔ قدامت پسند افغان معاشرے میں خواتین کو ان کے گھر والوں کی جانب سے اس کھیل میں حصہ لینے کی حمایت نہیں کی جاتی۔
پاور لفٹنگ ٹیم میں بیس افغان خواتین شامل ہیں جبکہ اسی کھیل کی مردوں کی ٹیم میں ایک سو سے زیادہ کھلاڑی شامل ہیں۔ عورتوں کی ٹیم کی کوچ توتاخیل شاہ پور کا کہنا ہے،’’ میں ان کے ساتھ بیٹیوں جیسا سلوک کرتی ہوں اگر میں ان کے ساتھ سخت رویہ رکھوں گی تو کوئی بھی عورت ٹیم میں نہیں رہے گی۔‘‘ شاہ پور کی رائے میں عورتوں کی ٹیم پر مردوں کی ٹیم کے مقابلے میں سرکار کی جانب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔
کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے شاہ پور انہیں مقابلوں میں حصہ لینے کے لیے قائل کرتی ہیں حالانکہ ان خواتین کو ماہانہ صرف پندرہ ڈالر تک رقم ملتی ہے۔ سادیہ احمدی ان لڑکیوں میں سب سے کامیاب کھلاڑی ہے۔ یہ ازبکستان، بھارت اور قزاقستان میں اب تک چار سونے کے تمغے جیت چکی ہے۔
جہاں ان خواتین کو بہت سے معاشرتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں اکثر کھلاڑیوں کی رائے میں ان کے گھر والے خصوصی طور پر ان کے گھروں کے مرد ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ پرہیز کا کہنا ہے،’’ میرے شوہر کو مجھ پر فخر ہے، وہ مجھ سے بہت خوش ہے۔‘‘
ب ج/ اا اے ایف پی