1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

لندن کے تجرباتی تھیئٹر میں عراق جنگ سے متعلق ڈرامہ

3 جولائی 2012

لندن کے ایک تھیئٹر میں عراق سے متعلق ایک ایسا نیا ڈرامہ پیش کیا جا رہا ہے، جس کا مقصد دنیا کو یہاں رونما ہونے والے ان واقعات سے آگاہ کرنا ہے جو اپنی تفصیلات کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ میں بالعموم زیادہ جگہ نہیں پاتے۔

https://p.dw.com/p/15QDu
تصویر: ivanukh / Fotolia

یہ اسٹیج ڈرامہ منگل سے مشرقی لندن کے ایک تھیئٹر میں پیش کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعے دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی جائے گی کہ سن 2003 میں عراق میں فوجی مداخلت سے پہلے اور بعد کے حالات کیسے تھے اور وہاں رہنا کیسا ہوتا تھا۔ ایک گھنٹے دورانیے کا یہ اسٹیج پلے دینا موسوی کی تخلیقی سوچ کا نتیجہ ہے اور اس میں ایک ایسی لڑکی کے ذاتی تجربات کو موضوع بنایا گیا ہے جو بغداد کی رہنے والی تھی اور جو بعد میں آٹھ سال کی عمر میں لندن منتقل ہو گئی تھی۔

اس ڈرامے کی مرکزی اداکارہ ایک نوجوان خاتون کے طور پر اس بات سے دلبرداشتہ ہو جاتی ہے کہ ذرائع ابلاغ میں عراق میں جنگی صورت حال کی تصویر کشی کس طرح کی جاتی ہے اور خاص طور پر جب اصل حقائق عراق کے بارے میں بننے والی فلموں کی صورت میں فرضی تفصیلات کے ساتھ گڈ مڈ کر دیے جاتے ہیں تو دیکھنے والے کو ایسی تفصیلات سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں جو صرف مردوں کی کہانیاں ہوتی ہیں۔

اس تناظر میں دینا موسوی سن 2011 میں عام عراقی خواتین کے ساتھ ان کی زندگی کے بارے میں انٹرویوز کے لیے بغداد گئیں۔ ان انٹرویوز کی تفصیلات اس خاتون کی اپنے بچپن کی یادوں اور تجربات سے مختلف نہیں تھیں۔ اس طرح اس اسٹیج ڈرامے کی محرکہ موسوی نے عراق کی ایسی تصویر کشی کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں یہ نظر آتا ہے کہ عراق کی صورت حال کو اس ملک میں رہنے والے اندر سے اور بیرونی دنیا کے لوگ باہر سے کس طرح دیکھتے ہیں۔

Das alltägliche Leben in Baghdad trotz politischer Krise
عراقی خواتین ایک دریا میں قیام امن کی امید میں دیے چھوڑ رہی ہیںتصویر: DW

اس وقت دینا موسوی کی عمر 33 برس ہے اور انہوں نے حال ہی میں مشرقی لندن میں اس ڈرامے کی ریہرسلز کے بعد خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ وہ اس بات پر بہت دلبرداشتہ ہو جاتی ہیں کہ عراقی جنگ کو میڈیا میں کس طرح پیش کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’میں نے جب بھی عراق سے متعلق کوئی فلم دیکھی، اس میں ہمیشہ مردوں ہی کی کہانیاں بیان کی گئیں۔ یا تو فوجی یا پھر دہشت گرد، لیکن ہمیشہ صرف مردوں ہی کی کہانیاں۔ میں یہ فلمیں دیکھ کر خود سے یہ سوال کرتی تھی کہ عورتوں کا کیا بنا؟‘

دینا موسوی کے اس تخلیقی تجسس کا نتیجہ ایک ایسے ڈرامے کی صورت میں نکلا ہے، جس میں محبت کی کہانی بھی ہے، لطیفے بھی، مزاح بھی اور چھوٹے بچوں کی معصومیت بھی۔ لیکن ساتھ ہی یہ اسٹیج ڈرامہ عراق میں تشدد اور خونریزی کے ان مناظر کی عکاسی بھی کرتا ہے جو آج بھی اندرون اور بیرون ملک میڈیا پر ویڈیو فوٹیج میں نظر آتے ہیں اور جن سے آج کے عراق میں پائی جانے والی موت اور خوف کی فضا جھلکتی ہے۔ یہ ڈرامہ 3Fates نامی کمپنی کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ڈرامے کا نام The Return یا ’واپسی‘ ہے اور یہ آج تین جولائی منگل کی شام سے لندن کے اولمپک پارک کے نواح میں دی یارڈ تھیئٹر (The Yard Theatre) میں پیش کیا جا رہا ہے۔

(mm / sks / (Reuters