لائبیریا میں ایبولا کے خلاف ’پیش رفت‘
30 اکتوبر 2014ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن(ڈبلیو ایچ او) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل بروس ایلوارڈ کا کہنا ہے کہ ایبولا کے نتیجے میں ہلاکتوں اور نئے متاثرہ افراد کی تعداد کم ہوئی ہے جبکہ مشتبہ مریضوں میں وائرس کی تصدیق کے واقعات بھی نیچے آ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فی الحال اس وائرس کے خاتمے کی امید نہیں ہے۔
انہوں نے بدھ کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا: ’’تمام ڈیٹا ایک ہی سِمت میں اشارہ کر رہا ہے۔ کیا ہم اس بارے میں پراعتماد ہیں کہ ایبولا کے خلاف کوششیں کارگر ہو رہی ہیں؟ جی ہاں، ہم یقینی طور پر نئے کیسز کے سامنے آنے کا عمل دھیما پڑتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک فلاحی ادارے ویلکم ٹرسٹ کے ڈائریکٹر جیرمی فیرار نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اس حوالے سے کوئی بھی اندازہ لگانے میں محتاط رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ عالمی تعاون کے نتیجے میں ایبولا کے خلاف خاطر خواہ پیش رفت کی تصدیق کے لیے آئندہ چند ہفتے خاصے اہم ہوں گے۔
فیرار نے روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’ہم ایک انتہائی اہم موڑ سے گزر رہے ہیں۔ اس وبا کے پھوٹنے کے بعد پہلی مرتبہ کوئی مثبت تبدیلی سامنے آ رہی ہے۔‘‘
اُدھر امریکی صدر باراک اوباما نے ایبولا کے خلاف کارروائیوں میں شریک امریکی طبی کارکنوں کو سراہا ہے۔ انہوں نے بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ان کارکنوں سے ملاقات کے موقع پر کہا کہ وہ سب امریکی ہیرو ہیں۔
اوباما سے ملاقات کرنے والوں میں امریکی ڈاکٹر کینٹ برینٹلی بھی شامل تھے جو لائبیریا میں کام کے دوران ایبولا کا شکار بن گئے تھے۔ انہیں گزشتہ ماہ امریکا کے ہسپتال میں علاج کے بعد فارغ کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر برینٹلی نے اسے ایک ’معجزاتی دِن‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ خود کو زندہ پا کر وہ انتہائی پرجوش ہیں۔
تینتیس سالہ برینٹلی کو ایبولا وائرس میں مبتلا ہونے پر اگست کے اوائل میں لائبیریا سے امریکا منتقل کیا گیا تھا۔ جمعرات 21 اگست کو انہیں مکمل صحت یاب قرار دے کر اٹلانٹا کے ایک ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے ایبولا میں مبتلا ہونے کے بعد زندگی کے تجربے پر بات کرتے ہوئے کہا تھا: ’’لائبیریا میں نو دِن بستر پر رہا، ہر دِن بیمار پڑتا جا رہا تھا، کمزور ہوتا جا رہا۔ اس حالت میں میں نے خدا سے دُعا کی وہ میری مدد کرے تاکہ اس بیماری میں بھی اس کا وفادار رہوں۔‘‘