لائبیریا میں ایبولا سے متاثر سترہ مریض لاپتہ
18 اگست 2014مونروویا کے ایک طبی مرکز میں ایبولا کے وائرس سے متاثرہ افراد کو رکھا گیا۔ وہاں ہفتے کو رات گئے ڈنڈا بردار نوجوانوں نے حملہ کیا۔
یہ واقعہ دارالحکومت کی ایک کچی بستی ویسٹ پوائنٹ کے ایک کلینک پر پیش آیا۔ اس کی ایک عینی شاہد ربیکا ویسیح نے بتایا: ’’انہوں نے دروازے توڑ دیے اور لوٹ مار کی۔ تمام مریض چلے گئے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ حملہ آوروں میں بیشتر نوجوان تھے اور انہوں نے لاٹھیاں اٹھا رکھی تھیں جبکہ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ’ایبولا کا وجود نہیں۔‘
وزارتِ صحت کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ نوجوان اس طبی مرکز سے دوائیں اور بستر بھی لے گئے ہیں۔ یہ طبی مرکز ایک اسکول میں قائم کیا گیا تھا۔
ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن آف لائبیریا کے سربراہ جارج ولیمز کا کہنا ہے کہ اس طبی مرکز میں انتیس مریض تھے اور تمام میں ایبولا وائرس پائے جانے کی تشخیص ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ہسپتال منتقل کیے جانے سے پہلے ان مریضوں کو وہاں ابتدائی طبی امداد دی جا رہی تھی۔
انہوں نے کہا: ’’انتیس مریضوں میں سے، سترہ گزشتہ رات فرار ہو گئے۔ نو چار روز پہلے انتقال کر گئے تھے جبکہ دیگر تین کو گزشتہ روز ان کے رشتہ دار زبردستی وہاں سے لے گئے۔‘‘
اس واقعے نے طبی حکام کو درپیش اس چیلنج کو اور بھی واضح کیا ہے کہ وہ ایبولا کی وبا پر کیسے قابو پائیں جو لائبیریا سمیت متاثرہ تین ملکوں میں اب تک ایک ہزار ایک سو پینتالیس افراد کی جان لے چکی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق متاثرہ ملکوں میں ڈاکٹر اور نرسیں محض اس بیماری کے خلاف ہی نہیں لڑ رہیں بلکہ انہیں مقامی کمیونٹیوں میں پائے جانے والے عدم اعتماد کا کبھی سامنا ہے۔ اس کی وجہ دراصل یہ افواہیں ہیں کہ یہ وائرس مغرب نے بنایا ہے یا پھر اس وائرس کی موجودگی محض ایک ’افواہ‘ ہے۔
ایبولا وائرس کسی متاثرہ شخص کے جسمانی مادوں کے ذریعے پھیلتا ہے اور فی الحال اس کا علاج موجود نہیں ہے۔ لائبیریا کے علاوہ سیرا لیون اور گنی میں ہی اس وائرس کے باعث ہلاکتیں ہوئی ہیں جبکہ دیگر افریقی ملکوں میں بھی خوف کی فضا ہے۔ کینیا نے اس تناظر میں متاثرہ ملکوں کے مسافروں کے اپنے ہاں داخلے پر پابندی کا اعلان کیا ہے جس کا اطلاق منگل سے ہو گا۔