قندوز حملے میں چانسلر آفس کا کردار کیا رہا
12 دسمبر 2009ہلاک ہونے والوں میں سے بیشتر افغان شہری تھے۔ اس باعث یہ حملہ متنازعہ صورت اختیار کر گیا تھا۔
جرمن ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس حملے کا مقصد طالبان شدت پسندوں کو نشانہ بنانا ہی تھا۔ روزنامہ لائپزگر فوکزسائٹنگ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ حملہ برلن حکومت کی جانب سے طالبان کے خلاف سخت کارروائی کے فیصلے کے بعد کیا گیا۔
یہ اخبار لکھتا ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا دفتر، وزارت دفاع اور خفیہ ایجنسیوں کےساتھ کام کرنے والے دیگر حکومتی عہدے داروں نے طالبان رہنماؤں کے قتل سمیت ان کے خلاف کارروائیاں بڑھانے پر اتفاق ظاہر کیا تھا۔
زوئڈڈوئچے سائٹنگ اور اشپیگل آن لائن نیوز نے بھی ISAF کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حملے کا ہدف طالبان ہی تھے۔ زوئڈڈوئچے سائٹنگ کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملے کا مقصد گاڑیوں کو نہیں بلکہ افراد کو نشانہ بنانا تھا۔
قبل ازیں جرمن حکام نے کہا تھا کہ یہ حملہ دو اغوا شدہ آئل ٹینکروں پر کیا گیا تھا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ آئل ٹینکر جرمن فوج پر حملے میں استعمال کئے جا سکتے تھے۔ جرمنی میں افغان مشن غیرمقبول خیال کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس حملے پر ایک بحث چھڑ گئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس حملے میں شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں تفصیلات دانستہ خفیہ رکھی گئیں۔ اس بحث سے پیدا ہونے والی صورت حال کے نتیجے میں سابق وزیر دفاع فرانس یوزیف ینگ اور جرمن فوج کے سربراہ مستعفی ہوئے۔
جرمن وزیر دفاع کارل تھیوڈورسوگٹن برگ اس فضائی حملے کی وجوہات کا نئے سرے سے جائزہ لینے کے لئے افغانستان کے دورے پر ہیں۔ جرمن پارلیمان میں شامل دیگر پارٹیوں کے دفاعی تجزیہ کار بھی سوگٹن برگ کے ہمراہ ہیں۔ جرمن وزیر دفاع اس حملے سے متعلق متضاد بیانات جاری کر چکے ہیں، جس پر برلن میں حزب اختلاف کی جماعتیں ان سے وضاحت کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ افغانستان روانگی سے قبل وزیر دفاع نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ قندوز حملے کے لئے پارلیمانی انکوائری انتہائی اہم بن چکی ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: شادی خان