قطر تنازعہ خیلجی ریاستوں کا ’گھریلو معاملہ‘ ہے، وائٹ ہاؤس
24 جون 2017وائٹ ہاؤس کے مطابق قطری تنازعے کے حل کے لیے اگر خلیجی ریاستیں بات چیت کا راستہ اختیار کرتی ہیں، تو امریکا اس میں ان کی مدد کرنے کو تیار ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان شان سپائسز کی جانب سے یہ بات ایک پریس کانفرنس میں کہی گئی۔ صحافیوں کی جانب سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کی جانب سے قطر کو پیش کیے گئے 13 نکاتی شرائط نامے سے متعلق رائے پر سپائسر نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔
عرب ممالک نے گزشتہ روز ایک 13 نکاتی شرائط نامہ پیش کیا تھا، جس پر قطر کو دس روز کے اندر اندر عمل درآمد کی مہلت دی گئی تھی۔ قطر نے ان شرائط کو ’ناقابل عمل‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
ان شرائط میں الجزیرہ ٹی وی کی نشریات کی بندش اور قطری سرزمین پر قائم ترک فوجی اڈے کے خاتمے کا کہنا گیا تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ ہم سایہ ریاستوں نے قطر کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے اور قطری طیاروں کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کی فضائی حدود استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق، ’’ہمارے خیال میں یہ ایک گھریلو جھگڑا ہے۔ اگر ہم اس حوالے سے اگر ہم مذاکرات میں کوئی مدد کر سکے، تو کریں گے۔ مگر اس کے لیے اصل میں خود ان ممالک کو مل کر کام کرنا ہو گا۔‘‘
آزادیء صحافت اور اظہار رائے کے حوالے سے امریکی عزم کے تناظر میں جب وائٹ ہاؤس کے ترجمان سے الجزیرہ ٹی وی کی بندش کے مطالبے سے متعلق سوال کیا گیا تو، سپائسر کا کہنا تھا، ’’ہم مذاکرات کے لیے معاون کا کردار ادا کر سکتے ہیں، مگر مسائل کے حل کے لیے ان ممالک کو خود مل بیٹھ کر بات چیت کرنا ہو گی۔‘‘
الجزیرہ ٹی وی کی جانب سے عرب ممالک کے اس مطالبے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے آزادیء اظہار رائے پر حملہ قرار دیا گیا ہے۔
قطر کو دیے گئے شرائط نامے میں عرب ریاستوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوحہ حکومت ایران کے ساتھ اپنے تعلقات محدود کرے۔ دوسری جانب امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹیلرسن نے ریاص اور دوحہ حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس تنازعے کے حل کے لیے سنجیدہ مذاکرات کریں۔