قحط سالی: افریقی یونین کا اجلاس ناکام
26 اگست 2011قرن افریقہ میں آنے والے بدترین قحط کے حوالے سے براعظم افریقہ کے ممالک کے اب تک کے رد عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جہاں صومالیہ اور قحط سالی کے شکار دوسرے ممالک میں لاکھوں انسان شدید مشکلات کا شکار ہیں اور انہیں فوری امداد کی ضرورت ہے، وہاں افریقی ممالک کا اس ضمن میں رد عمل انتہائی سست قرار دیا جا رہا ہے۔
اس بات کا اندازہ ایتھوپیا میں جمعرات کو ہونے والے افریقی ممالک کی تنظیم افریقی یونین کے اجلاس سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں افریقی ممالک کے صرف چار صدور نے شرکت کی۔ خیال رہے کہ افریقی یونین کے رکن ممالک کی کل تعداد 54 ہے۔ جمعرات کے اجلاس کی صدارت ایتھوپیا کے صدر نے کی۔ اجلاس میں ایتھوپیا کے صدر کے علاوہ جیبوتی، صومالیہ اور استوائی گنی کے سربراہان مملکت بھی شریک ہوئے۔
امدادی تنظیموں کے ماہرین، تجزیہ نگاروں اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ انہیں افریقی یونین جیسی غیر مؤثر تنظیم سے کوئی خاص امید نہیں ہے، بالخصوص ایسے وقت میں کہ جب تنظیم کے سب سے بڑے سرمایہ کار معمر قذافی لیبیا میں جاری خانہ جنگی کے باعث غیر حاضر ہوں۔
اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق صومالیہ، کینیا اور ایتھوپیا کے بارہ ملین انسانوں کو فوری طور پر غذائی امداد کی ضرورت ہے۔ افریقی یونین اپنے ایمرجنسی فنڈز سے پانچ لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کو چکی ہے۔ امدادی تنظیموں کے مطابق ان ممالک کو کم از کم ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر کی امداد کی ضرورت ہے۔
افریقی یونین کے چیرمین ژاں پنگ نے یونین پر ہونے والی تنقید پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں مزید وقت کی ضرورت ہے اور یہ کہ یونین اپنے حصے کی امداد کر چکی ہے۔
برطانوی امدای ادارے آکسفیم کے مطابق افریقی ممالک کی جانب سے اب تک بہت کم امداد کی گئی ہے۔ آکسفیم کا کہنا ہے کہ مصر نے سولہ اعشاریہ آٹھ ملین ڈالر جب کہ الجزائر نے دس ملین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: عاطف بلوچ