غزہ : مردوں کے خواتین کے ہیئر سیلون میں کام کرنے پر پابندی
25 فروری 2011خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئےغزہ پٹی میں سکونت پذیر کئی ایسے حضرات کا حوالہ دیا ہے، جو خواتین کے ہیئرسیلونوں میں کام کرتے رہے ہیں۔ خواتین کے لیے بنائے گئے ایک سیلون کے مالک نے بتایا،’ہمیں سرکاری طور پر ایک نوٹس ملا تھا۔ ہم نے اس حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں کہ ہم ایسے ہیئرسیلونوں میں کام نہیں کریں گے، جہاں خواتین جاتی ہیں۔‘
اطلاعات کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ کوئی بھی ایسا مرد، جو خواتین کے بال کاٹتے یا ان کے لیے بنائے گئے بیوٹی سیلون میں کام کرتا پایا گیا، تو اسے سزا دی جائے گی۔ بتایا گیا ہے کہ جرمانے کی سزا چار تا پانچ ہزار یورو کے برابر ہو سکتی ہے۔
ایک ایسے ہی ہیئرسیلون کے مالک نے بتایا،’حماس کی پولیس نے ہمیں حکم دیا کہ یا تو اس حکم نامے پر دستخط کرو یا جیل جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ حالانکہ ایسا کوئی بھی قانون نہیں ہے، جو مردوں کو خواتین کے ہیئر سیلون میں کام کرنے سے منع کرتا ہو۔‘
اے ایف پی نے جب حماس سے رابطہ کیا، تو اس نے اس نئے قانون کی تصدیق کرنے سے انکار کیا اور صرف اتنا ہی کہا کہ مارچ سن 2010ء میں اس قانون پر بحث ہوئی تھی، جبکہ اب اس کا اطلاق کر دیا گیا ہے۔
اگرچہ خواتین کے سیلونوں میں مردوں کے کام کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے، تاہم ابھی تک ان سیلونوں کو بند کرنے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں کہ اسلامی تنظیم حماس نے ایسا کوئی حکم جاری کیا ہو بلکہ اس سے قبل بھی یہ تنظیم ایسے کئی قوانین متعارف کروا چکی ہے، ابھی حال ہی میں ایسی دوکانوں کے لیے سخت ضوابط متعارف کروائے گئے تھے، جو خواتین کے ملبوسات بیچتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کھلے عام خواتین کے شیشہ پینے اور موٹر سائیکل چلانے پر بھی پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
حماس تنظیم نے جون سن 2007ء میں غزہ پٹی پر قبضہ کر لیا تھا اور تب سے ہی وہ اس علاقے پر حکمرانی کر رہی ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: عاطف توقیر