عراق کے خلاف گزشتہ امریکی جنگ: سی آئی اے کو اعتراض تھا
12 دسمبر 2014سی آئی اے نے اب تک خفیہ رکھے گئے اس خط کی تفصیلات جمعرات گیارہ دسمبر کو جاری کیں۔ خط کے مندرجات کے مطابق امریکی انٹیلیجنس کو اس دور کی بش انتظامیہ کی طرف سے عراق کے خلاف دوسری امریکی جنگ کے لیے تیار کردہ حالات و اسباب پر جزوی طور پر شدید تحفظات تھے۔
اس ایجنسی کے اسی سال مارچ میں امریکی سینیٹر کارل لیوِن کو لکھے گئے اور پھر صرف نو ماہ بعد ڈی کلاسیفائی کر دیے گئے خط میں درج تفصیلات کے بارے میں نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے: مارچ 2003ء میں عراق کے خلاف نئی جنگ کے آغاز سے قبل امریکی حکام نے، جن میں نائب صدر ڈِک چینی بھی شامل تھے، الزام لگایا تھا کہ نائن الیون کے دہشت گردانہ حملوں میں شامل ایک ہائی جیکر محمد عطا نے ان حملوں سے پہلے چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ میں ایک عراقی ایجنٹ سے ملاقات کی تھی۔
اس مبینہ ملاقات کو امریکی حکام نے نیو یارک اور واشنگٹن میں حملوں اور عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کے مابین ممکنہ تعلق کے ثبوت کے طور پر پیش کیا تھا۔ لیکن سینیٹر لیوِن کے نام اسی سال لکھے گئے خط میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن نے کہا کہ تب ایسی رپورٹوں پر سرگرم امریکی خفیہ ایجنٹوں نے ’گہری تشویش کا اظہار‘ کیا تھا۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ امریکی ایجنٹوں نے شواہد کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ وائٹ ہاؤس نے جس وقت محمد عطا کی عراقی جاسوس احمد خلیل ابراہیم العینی کے ساتھ پراگ میں مبینہ ملاقات کا دعویٰ کیا تھا، اس وقت عطا پراگ میں تھا ہی نہیں۔
سینیٹر کارل لیوِن کے مطابق انہوں نے سی آئی اے کو اس خط کو ڈی کلاسیفائی کرنے کا اس لیے کہا کہ ان حقائق کو منظر عام پر لایا جا سکے کہ کس طرح بش جونیئر کی انتظامیہ نے عراق کے خلاف دوسری جنگ سے پہلے امریکی عوام کو گمراہ کیا۔
کارل لیوِن نے جمعرات کی شام امریکی سینیٹ سے اپنے خطاب میں کہا، ’’یہ مبینہ ملاقات ماضی کی بش انتظامیہ کی اس مہم کا مرکزی حصہ تھی، جس کا مقصد امریکی عوام کو یہ تاثر دینا تھا کہ عراقی صدر صدام حسین القاعدہ کے ان دہشت گرد ہائی جیکروں سے ملے ہوئے تھے، جنہوں نے امریکا پر حملے کیے تھے۔‘‘
لیوِن کے مطابق، ’’سابق نائب صدر ڈِک چینی نے قومی ٹیلی وژن پر دیے گئے بیانات سمیت کئی مواقع پر پراگ میں اس مبینہ ملاقات کا حوالہ دیا تھا۔ ایک مرتبہ تو انہوں نے اس ملاقات کو ’کافی حد تک مصدقہ‘ بھی قرار دیا تھا۔‘‘ سینیٹر لیوِن نے کہا کہ انہوں نے یہ مسئلہ اس وقت اس لیے اٹھایا ہے کہ اس موضوع پر جیسے جیسے نئی معلومات سامنے آئیں، وہ امریکی عوام تک پہنچتی رہیں۔
کارل لیوِن نے امریکی سینیٹ کے ارکان کو بتایا، ’’ان انکشافات کا مقصد مستقبل کے امریکی رہنماؤں کو خبردار کرنا ہے کہ وہ جھوٹے بیانات کی بنیاد پر ہمارے بیٹے بیٹیوں کو جنگ کا ایندھن نہ بنائیں۔‘‘