1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں بیس سے زائد بم دھماکے، کم از کم چھتیس افراد ہلاک

19 اپریل 2012

عراق کے مختلف شہروں اور قصبوں میں آج جمعرات کو ہونے والے 20 سے زائد بم دھماکوں میں کم از کم 36 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔ پولیس اور طبی ذرائع نے ملک میں بم حملوں کی اس نئی لہر کی تصدیق کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/14h1h
تصویر: picture-alliance/dpa

عراقی دارالحکومت بغداد سے خبر ایجنسی روئٹرز نے بتایا ہے کہ دو درجن کے قریب بم دھماکوں اور ان میں بیسیوں افراد کے ہلاک یا زخمی ہونے نے ملک میں فرقہ ورانہ کشیدگی کے بارے میں سکیورٹی خدشات کو شدید تر کر دیا ہے۔

ان میں سے تین کار بم حملے، سڑک کے کنارے نصب بموں کے دو دھماکے اور ایک خود کش کار بم حملہ صرف ملکی دارالحکومت بغداد میں کیے گئے۔ ان حملوں میں زیادہ تر بغداد کے شیعہ آبادی والے علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ بظاہر یہ حملے بڑے منظم انداز میں چھوٹے چھوٹے وقفوں سے کیے گئے۔ ہسپتال کے ذرائع کے بقول ان حملوں میں بغداد میں 15 افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہوئے۔

Irak Kirkuk Bombenanschlag April 19
تصویر: Reuters

اس کے علاوہ شمالی عراق میں تیل کی پیداوار کے لیے مشہور شہر کرکوک کو بھی آج جمعرات کو متعدد بم حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کے مطابق کرکوک میں عسکریت پسندوں نے دو کار بم دھماکے کرنے کے علاوہ مختلف سڑکوں کے کنارے متعدد بم بھی نصب کر دیے تھے۔ ان بموں کے ذریعے پولیس اہلکاروں اور فوج کے گشتی یونٹوں کو ہدف بنایا گیا۔ روئٹرز کے مطابق کرکوک میں آج کے بم حملوں میں آٹھ افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوئے۔

نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ عراق میں ایک ہی دن میں کیے جانے والے اتنے زیادہ بم حملے ظاہر کرتے ہیں کہ عسکریت پسند ملک کی شیعہ اور سنی آبادیوں کے درمیان کشیدگی کو مزید ہوا دینا چاہتے ہیں۔ عراق میں شیعہ، سنی اور کرد آبادیوں کے درمیان کشیدگی میں گزشتہ برس دسمبر میں اس وقت سے کافی اضافہ ہو چکا ہے جب امریکی فوجی عراق سے نکل گئے تھے۔

اب یہ دھماکے ان خدشات میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں کہ عراق میں یہ کشیدگی ملک کی موجودہ مخلوط حکومت کے لیے اور بھی تشویش کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عراق اب دوبارہ شدید نوعیت کی فرقہ ورانہ خونریزی کا شکار ہو سکتا ہے۔ چند برس قبل بھی اسی طرح کی خونریزی اور شیعہ اور سنی آبادیوں کے درمیان کشیدگی نے اس ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

Irak Kirkuk Bombenanschlag April 19
تصویر: Reuters

روئٹرز کے مطابق عراق میں اس وقت فرقہ ورانہ خونریزی کے باعث بہت سے خدشات پائے جاتے ہیں۔ تاہم مشرق وسطیٰ کی یہ ریاست ابھی تک اس وسیع تر خونریزی سے محفوظ ہے، جیسی وہاں سن 2006 اور 2007 میں شیعہ اور سنی آبادیوں پر بم حملوں اور مقامی سکیورٹی دستوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کی صورت میں دیکھنے میں آئی تھی۔

شمالی عراقی شہر کرکوک میں کردوں کے علاوہ عرب، ترکمان اور کئی دوسری قومیتوں کے باشندے بھی آباد ہیں۔ اس خود مختار کرد علاقے کا عراق کی مرکزی حکومت کے ساتھ تنازعہ کافی پرانا ہے۔ کرکوک اسی علاقے کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس خطے میں تیل کے بہت زیادہ ذخائر بھی موجود ہیں۔

عراقی کردستان کہلانے والے اس علاقے کی حکومت اور بغداد کے درمیان کھنچاؤ ابھی حال ہی میں کافی زیادہ ہو گیا تھا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ کردوں کی خود مختار حکومت نے اس علاقے سے تیل کی برآمد بند کر دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ مرکزی حکومت ان تیل کمپنیوں کو کوئی ادائیگیاں نہیں کر رہی جو شمالی عراق میں کام کر رہی ہیں۔

عراق میں وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ امریکی فوجی دستوں کی واپسی کے بعد ملک میں سلامتی کو یقینی بنا سکتی ہے۔ تاہم حکومت کے بہت سے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ المالکی کی حکومت عراقی عوام کو عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کی وجہ سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی اقدامات نہیں کر رہی۔

عراق میں آج جن دیگر شہروں اور علاقوں میں خونریز بم دھماکے کیے گئے ان میں بعقوبہ کے علاوہ انبار کا صوبہ اور رمادی اور فالوجہ کے شہر قابل ذکر ہیں۔ ان شہروں میں متعدد بم دھماکوں میں بیسیوں افراد ہلاک یا زخمی ہو گئے۔

ij/ai/Reuters