1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراق میں بم دھماکے، کم از کم 76 افراد ہلاک

Imtiaz Ahmad18 مئی 2013

عراق میں جمعے کے دن ہونے والے بدترین بم دھماکوں میں کم از کم 76 افراد مارے گئے ہیں۔ بڑھتے ہوئے فرقہ ورانہ واقعات پہلے ہی سے تباہ حال اس ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/18aCx
تصویر: picture-alliance/AP

گزشتہ تین دنوں کے دوران عراق بھر میں ہونے والے فرقہ ورانہ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 130 تک جا پہنچی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تشدد کی اس تازہ لہر سے ایک مرتبہ پھر اس ملک میں فرقہ ورانہ فسادات کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ سن 2006 اور 2007ء کے دوران ہزاروں عراقی سنی اور شیعہ مسلمانوں کے مابین ہونے والے فرقہ ورانہ حملوں میں مارے گئے تھے۔

جمعے کے روز سب سے خونریز بم دھماکا بعقوبہ کی ایک سُنی مسجد کے قریب ہوا۔ اس حملے میں کم از کم 41 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اسی طرح ایک دھماکا اس وقت ہوا، جب لوگ سریا مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ اس کے بعد دوسرا دھماکا اس وقت ہوا ، جب لوگ جائے حادثہ پر جمع تھے۔ ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

Irak Anschlag Bakuba
تصویر: picture-alliance/AP

بغداد دھماکے

جمعے کی شام عراق کے دارالحکومت بغداد کے ایک شاپنگ سینٹر کے قریب دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک جبکہ بتیس کے قریب زخمی ہوئے۔ یہاں بم حملہ سُنی تجارتی علاقے الدورا میں ہونے والے دھماکے کے بعد کیا گیا۔ الدورا میں ہونے والے حملے میں دو افراد ہلاک جبکہ 22 کے قریب زخمی ہوئے۔

اسی طرح ایک اور بم حملہ ایک سُنی شخص کے جنازے پر کیا گیا، جس میں آٹھ افراد ہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے۔ پولیس اور ہسپتال ذرائع کے مطابق ایک اور بم حملہ بغداد سے 65 کلومیٹر مغرب میں واقع فلوجہ شہر میں ہوا۔ اس میں دو افراد ہلاک اور نو زخمی ہوئے۔ ان واقعات کے ایک روز پہلے متعدد شیعہ مقامات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق حالیہ پُر تشدد اور فرقہ ورانہ واقعات نے عراقیوں کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ عراق کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار عمر الصالح کا کہنا ہے، ’’ ایک طرف شیعہ نمازیوں پر حملے کیا جا رہے ہیں، دوسری طرف سُنی نمازیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملوں کے پیچھے جو کوئی بھی ہے، وہ فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دینا چاہتا ہے۔‘‘

عمر الصالح کا مزید کہنا تھا، ’’ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں سکیورٹی کی صورتحال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ عراقی اس صورتحال پر نہ صرف فکر مند ہیں بلکہ خوفزدہ بھی ہیں۔‘‘

عراق میں جاری کشیدگی میں اضافہ اس وقت سے ہوا ہے ، جب سے سُنیوں نے شیعہ حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز کر رکھا ہے۔ احتجاجی مظاہرے بظاہر پر امن ہیں لیکن ان کے آغاز کے بعد سے فرقہ ورانہ حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ مذہبی بنیادوں پر امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ عراق میں سیاست نسلی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر ہوتی ہے۔ وہاں شیعہ، سنی اور کرد نسل کی آبادی کے مابین اقتدار میں شراکت داری پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔

ia / ab (AFP, Reuters,AP)