عراق میں باغیوں کی پیشقدمی: امریکا کا بھی ایران سے مذاکرات پر غور
16 جون 2014واشنگٹن سے پیر 16 جون کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکا اس بارے میں اپنے بڑے حریف ملک ایران کے ساتھ بات چیت پر غور و فکر کر رہا ہے کہ عراق میں مسلسل پیشقدمی کرنے والے اسلام پسند باغیوں کے خلاف جنگ میں بغداد حکومت کے ہاتھ کس طرح مضبوط بنائے جا سکتے ہیں۔
عراقی شہر موصل سے موصولہ خبر ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ’اسلامی ریاست عراق و شام‘ یا ISIL کہلانے والی اسلام پسند ملیشیا کے مسلح باغیوں نے گزشتہ ہفتے کے دوران شمالی عراق میں حیران کن پیشقدمی کرتے ہوئے کئی شہروں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
مسلح اسلام پسندوں کی اس پیشقدمی کی وجہ سے اب نہ صرف عراقی ریاست کے تقسیم ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے بلکہ وہاں ایسی شدید اور وسیع تر فرقہ ورانہ جنگ بھی شروع ہو سکتی ہے جو پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عراق میں تواتر سے عسکری کامیابیاں حاصل کرنے والے اسلام پسند باغی علاقے کی مختلف ریاستوں کے مابین بین الاقوامی سرحدوں کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔
روئٹرز کے مطابق امریکا اور ایران کے مابین رقابت اور دشمنی کی جڑیں ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب تک پھیلی ہوئی ہیں۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ عراق میں اسلام پسند باغیوں کی حالیہ اور بہت اچانک کامیابیوں پر ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت تشویش بھی پائی جاتی ہے۔
ایسے میں امریکا اور ایران دونوں کے مشترکہ اتحادی، عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت کی مدد کے لیے تہران اور واشنگٹن کا مل کر کچھ بھی کرنا ایک بہت بڑی پیش رفت ہو گا۔
’اسلامی ریاست شام و عراق‘ نامی ملیشیا کے ارکان دونوں ملکوں میں سنی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ شام میں ایران کی حمایت یافتہ دمشق حکومت کے دستوں اور لبنان کی حزب اللہ سمیت کئی ملیشیا گروپوں کے ارکان کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں۔ اس طرح آئی ایس آئی ایل کے جنگجوؤں کی نظر میں اس وقت معاملہ عراق اور شام میں شیعہ یا شیعہ مسلمانوں کے علوی فرقے کی حکومتوں اور ان کے اتحادی مسلح گروپوں کے خلاف جنگ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
اس پس منظر میں ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اتوار کی رات واشنگٹن میں روئٹرز کو بتایا کہ امریکا ایران کے ساتھ رابطہ کرنے کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ بغداد حکومت کی مدد کے لیے راستے نکالے جا سکیں۔ سرکاری طور پر جب اس بارے میں وائٹ ہاؤس سے استفسار کیا گیا تو جواب یہ تھا کہ ابھی تک ایسے کوئی رابطے عمل میں نہیں آئے۔
موجودہ حالات میں عراق کی مدد کرنے کے سلسلے میں امریکی صدر باراک اوباما یہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ عراق میں دوبارہ امریکی فوجی بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم واشنگٹن حکومت باغیوں کے خلاف فضائی حملوں سمیت دیگر عسکری امکانات کا جائزہ لے رہی ہے۔
ابھی گزشتہ ہفتے کے آخر میں ہی ایران کے مقابلتاﹰ اعتدال پسند صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ اگر ایران کو امریکا عراق اور دوسرے علاقوں میں دہشت گردی کا مقابلہ کرتا نظر آیا، تو اسلام پسند باغیوں کے خلاف بغداد حکومت کی مدد کے لیے ایران امریکا کے ساتھ تعاون کرنے پر بھی تیار ہو گا۔