عراق: شیعہ مزار پر حملے میں 37 ہلاک، سکیورٹی چیف برطرف
8 جولائی 2016دارالحکومت بغداد سے اسی کلومیٹر شمال کی جانب واقع شہر بلد میں ایک شیعہ مزار اور ایک قریبی مارکیٹ پر کیے جانے والے اس حملے میں باسٹھ افراد زخمی بھی ہو گئے۔ عراقی صوبے صلاح الدین میں اس حملے کے آغاز پر پہلے سید محمد ابن امام ہادی کے مزار پر مارٹر گولے برسائے گئے۔
تفصیلات کے مطابق ایک خود کُش بمبار نےمزار کے داخلی دروازے پر پہرہ دینے والے پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر دی، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دوسرا بمبار نو عدد مسلح افراد کے ہمراہ مزار کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ ان شدت پسندوں نے وہاں موجود سکیورٹی فورسز کے ارکان کے ساتھ ساتھ عید الفطر منانے کے لیے جمع شہریوں کو بھی فائرنگ کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ایک تیسرے بمبار کو اپنی بارودی جیکٹ کو اُڑانے سے پہلے ہی ہلاک کر دیا گیا۔
اس نئے حملے کی بھی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے جانے والے ایک پیغام کے ذریعے قبول کی ہے۔ عراقی دارالحکومت بغداد سے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس امر کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ آیا یہ پیغام واقعی اس جہادی تنظیم کی طرف سے ہے تاہم اسے عسکریت پسندوں کی ایک ایسی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا گیا ہے، جہاں عموماً اس طرح کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔
ان پَے در پَے حملوں پر عوامی غم و غصّے میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور رواں ہفتے کے اوائل میں ہونے والے اُس ہولناک بم دھماکے کی جگہ پر احتجاج کی ایک بڑی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے، جہاں کم از کم دو سو جبکہ مقامی میڈیا کے مطابق تقریباً تین سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ عوام اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے حملوں کے لیے ملک کی سیاسی قیادت کو قصور وار قرار دے رہے ہیں۔
اسی تناظر میں وزیر ا عظم حیدر العبادی نے بغداد کے سکیورٹی چیف کو برطرف کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا گیا ہے کہ کئی ایک دیگر انٹیلیجنس اور سکیورٹی اہلکاروں کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔
حیدر العبادی نے چند روز پہلے بغداد میں ہونے والے بڑے بم دھماکے کے فوراً بعد سکیورٹی کے نئے انتظامات کا وعدہ کیا تھا تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اُن کے اعلان کردہ اقدامات میں سے کچھ اقدامات کو عملی شکل بھی دی گئی ہے یا نہیں۔