عراق: انتخابی عمل کی خونریز ابتدا
28 اپریل 2014فوج اور پولیس کے سپاہیوں کو دو روز پہلے ہی ووٹ ڈالنے کی سہولت اس لیے دی گئی تھی تاکہ وہ دسمبر 2011ء میں امریکی فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد سے منعقد ہونے والے ان پہلے انتخابات کے موقع پر سکیورٹی انتظامات میں شریک ہو سکیں۔ پیر کو ہونے والے حملوں میں خود کُش بم حملے بھی شامل ہیں۔ دارالحکومت بغداد کے ساتھ ساتھ ملک کے شمالی اور مغربی علاقوں میں بھی ہونے والے ان حملوں کے بعد یہ خدشات زور پکڑ رہے ہیں کہ ملک تیزی سے خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق خود کُش جیکٹیں پہنے ہوئے حملہ آوروں نے بغداد اور دارالحکومت سے شمال کی جانب واقع شہروں میں پولنگ سینٹرز کو نشانہ بنایا جبکہ سڑک کنارے نصب کیے گئے بموں کے ذریعے فوجی گاڑیوں کے قافلوں اور انتخابات کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایک صحافی نے بتایا کہ مغربی بغداد کے ایک ووٹنگ سینٹر پر حملے میں چھ سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد فوجیوں نے اُس علاقے کی ناکہ بندی کر دی، راہگیروں کو اُدھر جانے سے روک دیا جبکہ زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کے لیے ایمبولینس گاڑیاں وہاں آتی جاتی دیکھی گئیں۔ حکام کے مطابق ملک کے دیگر مقامات پر ہونے والے حملوں میں مزید چَودہ افراد ہلاک ہو گئے۔ بتایا گیا ہے کہ آج مرنے والے تمام بیس افراد فوج یا پولیس کے اہلکار ہی ہیں۔
شمالی عراقی شہر موصل میں ایک فوجی گاڑی میں سوار ہو کر فوج اور پولیس کے سپاہیوں کی ووٹنگ کی کوریج کے لیے جانے والے چھ صحافی اُس وقت زخمی ہو گئے، جب اُن کی گاڑی سڑک کنارے پھٹنے والے ایک بم کی زَد میں آ گئی۔
یہ حملے ایک ایسے وقت ہوئے، جب فوج اور پولیس کے اہلکار سخت حفاظتی انتظامات میں منعقد ہونے والے انتخابات کے دوران اپنے اپنے ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹنگ سینٹرز کے سامنے قطاریں بنائے کھڑے تھے۔ پیر کے روز ملک بھر میں قائم کیے گئے پانچ سو پولنگ اسٹیشنوں پر صرف سکیورٹی فورسز کے آٹھ لاکھ اہلکاروں ہی کو نہیں بلکہ جیلوں اور ہسپتالوں کے عملے کے ارکان اور مریضوں اور قیدیوں کو بھی اپنے ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔
تریسٹھ سالہ وزیر اعظم نوری المالکی، جنہیں امن و امان کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتِ حال میں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور اقلیتی گروپوں کو نشانہ بنانے کے الزامات کا سامنا ہے، ان انتخابات کے ذریعے تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے خواہاں ہیں۔ دوسری جانب عراقی شہری بنیادی سہولتوں کے فُقدان کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر پائی جانے والی بدعنوانی اور بیروزگاری کی وجہ سے بھی بہت زیادہ پریشان ہیں۔ تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں کے خیال میں نوری المالکی کی کامیابی کے امکانات اس بار بھی روشن ہیں کیونکہ ایک تو اُن کا کوئی واضح متبادل نظر نہیں آ رہا اور دوسرے اُن کا مقابلہ ایسی اپوزیشن قوتوں سے ہے، جو انتشار کا شکار ہیں۔
تازہ پُر تشدد واقعات کے بعد یہ شکوک و شبہات پھر سے قوی تر ہو گئے ہیں کہ آیا ملکی سکیورٹی فورسز واقعی اتنی صلاحیت رکھتی ہیں کہ وہ انتخابات کے محفوظ انعقاد کو یقینی بنا سکیں۔ 2010ء کے بعد سے منعقد ہونے والے ان پہلے عام انتخابات میں مجموعی طور پر بیس ملین سے زیادہ رائے دہندگان اپنے ووٹ ڈال سکیں گے۔