1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی نائب صدر کو ملک بدر نہیں کیا جائے گا، ترکی

Imtiaz Ahmad10 مئی 2012

ترکی نے عراقی مفرور نائب صدر طارق الہاشی کو ملک بدر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہیں اپنی غیر حاضری میں بغداد میں ایک مقدمے کا سامنا ہے، جس میں ان پر ڈیتھ اسکواڈز چلانے کا الزام ہے۔

https://p.dw.com/p/14sYJ
تصویر: picture-alliance/dpa

ایک عدالتی ترجمان کے مطابق ہاشمی اور ان کے ساتھیوں کو 150 کے قریب الزامات کا سامنا ہے، جن میں چھ ججوں سمیت سینئر حکومتی عہدیداروں کے قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔

ترکی کی اناطولیہ نیوز ایجنسی نے ترک نائب وزیر اعظم Bekir Bozdag کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے، ’’ہم کسی ایسے شخص کو ملک سے نہیں نکالیں گے، جس کی ہم نے ابتدا سے حمایت کی ہو۔‘‘ ترک حکام کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایک روز قبل ہی انٹرپول نے ہاشمی کی گرفتاری کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کیا ہے۔ انٹرپول کا کہنا تھا کہ ایسا بغداد حکومت کے کہنے پر کیا گیا اور اس عراقی سنی لیڈر پر دہشت گردانہ واقعات کی حمایت اور معاونت کا شبہ ہے۔ ترک نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ الہاشمی علاج کی غرض سے ان کے ملک میں موجود ہیں۔

Irak Vizepräsident Tarek el Haschemi
طارق الہاشمی رواں برس نو اپریل سے استنبول میں قیام پذیر ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

طارق الہاشمی رواں برس نو اپریل سے استنبول میں قیام پذیر ہیں۔ گزشتہ روز ان کا اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں کہنا تھا، ’’ میں قانون سے بالا تر نہیں ہوں۔ اگر مجھے سکیورٹی اور منصفانہ مقدمے کی ضمانت دی جائے تو میں عدالت کے سامنے پیش ہو سکتا ہوں۔‘‘ گزشتہ ہفتے بغداد میں ہاشمی کے مقدمے کی سماعت 10 مئی تک مؤخر کر دی گئی تھی۔ ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ ایک خصوصی عدالت میں چلایا جائے۔

طارق الہاشمی نے اس مقدمے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے اور کہا کہ بغداد میں ان کی زندگی خطرے میں ہے۔

ترک نائب وزیر اعظم کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ بات اہم ہے کہ ہاشمی کا نام مطلوب افراد کی فہرست میں ہے لیکن انہوں نے بھی بغداد حکومت سے کچھ مطالبات کر رکھے ہیں۔ ترکی سے آزادی کی جنگ لڑنے والے کردستان ورکر پارٹی(PKK ) کے کارکنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’دہشت گرد تنظیمیں اور ان کے حمایتی وہاں (عراق میں) موجود ہیں۔ ہم ان کی حوالگی چاہتے ہیں لیکن عراقی حکومت کی طرف سے ہمیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔‘‘

ترکی نے بغداد حکومت سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ کردستان ورکر پارٹی کے کارکنوں کو عراقی سرزمین استعمال نہ کرنے دی جائے۔ ترکی اور بین الاقوامی برادری نے PKK کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ جنوب مشرقی ترکی میں یہ تنظیم سن 1984 سے کرد علاقے کی آزادی کے لیے مسلح کوششوں میں مصروف ہے۔ اندازے کے مطابق اب تک اس تنازعے میں لگھ بھگ 45 ہزار جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔

ia/at (Reuters, AFP, AP)