عراقی فوج کے اعتماد کی بحالی ضروری ہے، امریکا
1 جنوری 2015امریکا نے عراق میں نو سال تک جنگ لڑی ہے اور یہ امریکی تاریخ کی مہنگی ترین جنگوں میں سے ایک ہے۔ آج کل امریکی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد عراق و شام میں آئی ایس کے ٹھکانوں پر بمباری میں بھی مصروف ہے۔ اس کے علاوہ امریکا عراقی دستوں کو مشاورت اور تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔
اس نئے منصوبے کے تحت عراقی دستوں کے پہلے گروپ کی تربیت تاجی بیس کمپلیکس میں جاری ہے۔ شمالی بغداد میں تاجی کا یہ تربیتی مرکز اُن پانچ مقامات میں سے ایک ہے، جہاں عراقی دستوں کو تربیت مہیا کی جانی ہے۔ میجر جنرل دانا پٹرڈ کے مطابق ’’ فروری کے وسط تک پہلے گروپ کی تربیت مکمل ہو جائے گی۔ بعد ازاں ہر چھ سے آٹھ ہفتوں کے وقفے سے مزید پانچ ہزار فوجیوں کو ٹریننگ دی جائے گی‘‘۔
اسلامک اسٹیٹ نے گزشتہ برس جون میں عراق میں ایک بڑی کارروائی شروع کی تھی، جس کے بعد سنی اکثریت والے زیادہ تر علاقے ان کے زیر تسلط آ گئے تھے۔ اس کے بعد اسی ماہ میں حکومت نواز دستوں کی جانب سے بھی جوابی آپریشن شروع کیا گیا۔ اس دوران حکومتی دستے کچھ علاقے تو آئی ایس کے قبضے سے آزاد کرا چکے ہیں تاہم ابھی بھی عراقی سرزمین کے بہت سے حصوں کی باگ ڈور بغداد حکام کے پاس نہیں ہے۔
میجر جنرل دانا پٹرڈ نے مزید بتایا کہ یہ بالکل بنیادی تربیت ہے اور اس میں سکھایا جائے گا کہ اگر آئی ایس کے شدت پسند حملہ کرتے ہیں تواپنا دفاع اور جوابی حملہ کس طرح کیا جائے گا۔ ’’ اس کا مقصد عسکری صلاحیتوں کو بڑھانا، اعتماد میں اضافہ کرنا اور ایک ماہر فوج تیار کرنا ہے‘‘۔ دفاعی حلقوں کے مطابق جون میں شروع کیے جانے والے آپریشن کے وقت کسی ایسی ہی فورس کی شدید کمی محسوس کی گئی تھی، جس کی وجہ سے آئی ایس کے دہشت گردوں کا ساز وسامان لوٹ کر فرار ہوجانا آسان ہو گیا تھا۔
امریکا نے عراقی جنگ کے دوران ملکی دستوں کی تربیت پر اربوں ڈالر خرچ کیے ہیں تاہم 2011ء میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں سرد مہری بھی آئی اور فوجی دستوں کا معیار بھی پہلے کی طرح برقرار نہیں رکھا جا سکا۔ عراق میں آج کل دو ہزار سے زائد امریکی اہلکار موجود ہیں، جن میں سے 180 تاجی کی فوجی چھاؤنی میں تعینات ہیں اور یہ تعداد 300 تک پہنچ سکتی ہے۔