عراقی فوج جہادیوں کے خلاف کسی بڑے حملے سے ’مہینوں دور‘
24 اکتوبر 2014امریکا میں میکڈِل ایئر فورس بیس سے نیوز ایجنسی اے ایف پی نے اپنے ایک تفصیلی تجزیے میں فوجی ماہرین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عراقی فورسز سرِدست صرف چھوٹے چھوٹے حملوں کی منصوبہ بندی کر سکتی ہیں۔ ایک اعلیٰ امریکی اہلکار کا نام لیے بغیر حوالہ دیتے ہوئے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ بغداد حکومت کے سکیورٹی دستے اس سال خود کو میدان جنگ میں پہنچنے والے جانی نقصان اور شکستوں کے پے در پے سلسلوں کے بعد نئے سرے سے اپنی گروپ بندی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ’’ایسے میں یہ ممکن ہی نہیں کہ عراقی فوج کوئی بڑا آپریشن کرتے ہوئے اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں سے وہ علاقے دوبارہ چھین لے جن پر دولت اسلامیہ کے شدت پسند قبضہ کر چکے ہیں۔‘‘
امریکی فوج کے ایسے ذرائع کے مطابق عراقی فوجی دستے مزید قریب ایک سال کی تربیت اور عملی منصوبہ بندی کے بعد ہی اس قابل ہو سکیں گے کہ مثال کے طور پر موصل میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے خلاف کوئی ایسی بڑی کارروائی شروع کر سکیں، جس کا نتیجہ بھی ان کے حق میں نکلے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے ہیڈ کوارٹرز میں متعین ایک اور اعلیٰ اہلکار نے کہا، ’’ایک مہینے میں تو نہیں البتہ قریب ایک سال میں وہ (عراقی فوجی دستے) اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنی عسکری صلاحیتوں کو استعمال میں لاتے ہوئے جوابی حملہ کر سکیں۔‘‘ اس امریکی فوجی اہلکار نے مزید کہا، ’’لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔‘‘
اسی دوران چند دیگر امریکی فوجی اہلکاروں نے اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اپنی شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر یہ بھی کہا ہے کہ فوری طور پر عراقی فوج اس حالت میں نہیں کہ کسی بڑے عسکری معرکے کو کامیابی سے تکمیل تک پہنچا سکے۔ ’’ان حالات میں امریکا اور دوسرے اتحادی ملکوں کی طرف سے عراق میں جہادیوں کے خلاف کیے جانے والے فضائی حملے بھی عراقی دستوں کی مدد کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔‘‘
امریکا کے سینٹرل ملٹری کمانڈ ہیڈ کوارٹرز کے اہلکاورں نے غیر اعلانیہ طور پر یہ بھی کہا ہے کہ عراق میں اتحادی جنگی طیاروں کے جہادیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کی رفتار بھی اس لیے محدود رکھی گئی کہ عراقی فوجی دستے ایک تو زیادہ تر صرف دفاعی پوزیشنوں میں تھے اور دوسرے یہ کہ وہ حرکت بھی نہیں کر رہے تھے۔