عراقی صدر سعودی شاہ سے بات چیت کے لیے ریاض میں
12 نومبر 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شعیہ اکثریتی ملک عراق اور سنی اکثریتی ملک سعودی عرب کے درمیان برسوں تک کشیدہ تعلقات کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اتنا اعلیٰ سطحی رابطہ ہوا ہے۔
ریاض میں شاہ عبداللہ کے محل میں دونوں ممالک کے اعلیٰ رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی۔ سعودی خبر رساں ادارے کے مطابق، ’عراقی صدر نے سعودی عرب کے دورے پر مسرت کا اظہار کیا اور اپنے برادر شاہ عبداللہ سے ملے، جنہوں نے اس وفد کو خوش آمدید کہا۔‘
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے علاقائی اور بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات اور ان میں بہتری کے راستوں پر بات کی۔ تاہم سعودی خبر رساں ادارے نے اس ملاقات کی تفصیلات نہیں بتائیں، نہ ہی یہ بتایا کہ فواد معصوم سعودی عرب میں کتنے روز قیام کریں گے۔
واضح رہے کہ سابق عراقی وزیراعظم نوری المالکی کے دور میں بغداد اور ریاض حکومتوں کے باہمی تعلقات کشیدگی کا شکار رہے۔ سن 2010ء میں نوری المالکی دوسری مرتبہ منصبِ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے، جب کہ اس کے لیے تہران اور واشنگٹن نے اہم کردار ادا کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عراق سے سن 2010ء میں امریکی فوج کے انخلا کے بعد ایران نے عراق میں اپنے اثرورسوخ میں خاصا اضافہ کیا ہے، جس میں نوری المالکی اور تہران حکومت کے درمیان قریبی تعلقات نے کلیدی کردار ادا کیا۔
خطے میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان پائی جانے والی عداوت کی وجہ سے ریاض حکومت اور بغداد انتظامیہ کے درمیان تعلقات میں ماضی میں کشیدگی دیکھی گئی ہے۔ شام اور خطے کے دیگر علاقوں میں جنگ میں بھی سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے مدمقابل نظر آتے ہیں۔
جون میں سعودی وزیر خارجہ پرنس سعود الفیصل نے عراق میں خانہ جنگی سے خبردار کرتے ہوئے تشدد میں اضافے کی ذمے داری نوری المالکی کی ’فرقہ واریت پر مبنی پالیسیوں‘ پر عائد کی تھی۔
یہ بات اہم ہے کہ جہادیوں نے عراق کے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے جب کہ نوری المالکی کی حکومت سعودی عرب اور قطر پر الزام عائد کرتی رہی ہے کہ وہ سنی شدت پسند گروہوں کی امداد کرتے ہیں۔ تاہم عراق میں فواد معصوم کی جانب سے وزیراعظم کے منصب کے لیے حیدر العبادی کو نامزد کیے جانے کے بعد سے عراق اور سعودی عرب کے تعلقات میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔