عالمی تجارت سے متعلق دس سالہ مذاکرات کی ناکامی کا خدشہ
23 اپریل 2011امریکہ کے چین، بھارت اور برازیل جیسے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اہم رکن ملکوں کے ساتھ یہ اختلافات بنیادی طور پر مصنوعات کی تیاری اور ان پر عائد کیے جانے والے محصولات سے متعلق ہیں۔ اس بارے میں ڈبلیو ٹی او کے ڈائریکٹر جنرل پاسکل لامی کا کہنا ہے کہ ان ملکوں کے باہمی اختلافات کی وجہ یہ تنازعہ ہے کہ تیار شدہ مصنوعات کی تجارت پر عائد کیے جانے والے محصولات میں کمی کس حد تک کی جانی چاہیے۔
پاسکل لامی کے بقول یہ اختلاف رائے اتنا زیادہ ہے کہ فریقین ابھی تک اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور یہ خلیج فوری طور پر عبور ہوتی نظر نہیں آتی۔ WTO کے ڈائریکٹر جنرل کے مطابق یہ جمود سنجیدہ نوعیت کے ایسے خدشات کا سبب بنا ہے کہ عالمی ادارہء تجارت کے رکن ملکوں کے درمیان یہ تنازعہ عالمی تجارت ہی سے متعلق زراعت، پیشہ ورانہ خدمات اور اینٹی ڈمپنگ ضابطوں سمیت کئی طرح کے ریگولیٹری امور کے بارے میں مذاکرات کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
اسی لیے پاسکل لامی کا کہنا ہے کہ امریکہ سمیت ڈبلیو ٹی او کے رکن ملکوں کو اب ایک مشکل انتخاب کرنا ہو گا، یا تو وہ اپنے اپنے سخت موقف پر ڈٹے رہیں اور مذاکرات تعطل کا شکار رہیں اور یا پھر وہ کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے کی امید میں اپنی اپنی پوزیشن میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی سوچ اپنائیں۔
امریکہ میں صدر باراک اوباما کی قیادت میں ملکی انتظامیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ امریکی کانگریس ایسے کسی بھی معاہدے کو ممکنہ طور پر مسترد کر سکتی ہے، جس میں اس بات پر زیادہ دھیان نہ دیا گیا ہو کہ بین الاقوامی تجارتی مذاکرات کے نتیجے میں امریکہ میں زراعت، تیار شدہ مصنوعات اور پیشہ ورانہ خدمات کے شعبوں میں برآمدات اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونے چاہیئں۔
عالمی ادارہء تجارت کے تحت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ان مذاکرات کا آغاز سن 2001 میں ہوا تھا اور اسی لیے اس بات چیت کو ’دوحہ راؤنڈ‘ کی مکالمت کا نام دیا جاتا ہے۔
اس بات چیت کا مقصد یہ تھا کہ امیر ملکوں کی داخلی منڈیوں تک غریب اور ترقی پذیر ریاستوں کو ان کی برآمدی مصنوعات کے لیے زیادہ سے زیادہ رسائی دیتے ہوئے کم تر وسائل والے ملکوں کو بھی ترقی اور خوشحالی کے کافی مواقع مہیا کیے جائیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: شادی خان سیف