طالبان کے خلاف آپریشن یا مذاکرات، مسلم لیگ نون میں دراڑیں
27 جنوری 2014پیر کے روز اسلام آباد میں حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو تباہ حال معیشت اور دہشت گردی کے دو بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ایک سرکاری بیان کے مطابق ویز اعظم کا کہنا تھا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بچانا ہوگا، ’’دہشت گردی اور شدت پسندی کا خاتمہ کیے بغیر پاکستان تیز کو رفتار ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ملک میں امن اور استحکام لانے کے لئے ہر ممکن اقدام کریں گے۔ مسلح افواج کے افسران اور جوان، جو اپنی جانیں دے رہے ہیں، ہمارے ہیرو ہیں اور ان کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔‘‘
وزیر اعظم کا کہنا تھاکہ پاکستان کا ایک امن پسند ملک کے طور پر تشخص قائم کرنے کے لئے پارلیمنٹ، فوج، عدلیہ اور سول سوسائٹی سمیت سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
مسلم لیگ (ن) کی اکثریت آپریشن کے حق میں
حکومتی پارلیمانی پارٹی کا یہ اجلاس گزشتہ روز کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے حکومت کو مذاکرات کی دوبارہ پیش کش کے بعد طلب کیا گیا تھا۔ تاہم سرکاری طور پر اس اجلاس کی کارروائی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ مسلم لیگ(ن) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی کے برعکس اس مرتبہ ارکان کی اکثریت نے مذاکرات سے انکار کرنیوالے طالبان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اجلاس کے شرکا ء کو ملک میں امن و امان کی صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے بارے میں بریفنگ بھی دی۔
’حکومت نہیں تو ہم مذاکرات کرتے ہیں‘
پیر کے روز ہی صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں طالبان کے ساتھ بات چیت کے لئے حکومت کو مینڈیٹ دے چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اگر طالبان سے خود مذاکرات نہیں کرنا چاہتی تو کے پی کے کی صوبائی حکومت ان مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ انہوں نے حکومت کو طالبان کے ساتھ بات چیت کے لئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن حکومت کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں آیا۔ انہوں نے کہا، ’’مھجے افسوس یہ ہے کہ مسئلہ ہمارے صوبے کا ہے اور پچھلے تین مہینوں سے ہم بات کر رہے ہیں کہ ہمیں اعتماد میں لیں۔ ہمیں آج تک پتہ نہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔ مسئلہ ہمارا ہے، تکلیف میں ہم ہیں، مارے ہم جا رہے ہیں، جنگ ہمارے صوبے میں ہے لیکن وفاق کو فکر ہی نہیں ہے اور انہوں نے ہم سے رابطہ ہی نہیں کیا۔ اگر انہوں نے اکیلے ہی فیصلہ کرنا ہے تو پھر ہم اپنا فیصلہ خود کریں۔‘‘
’فیصلہ جلد کریں‘
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء سینیٹر شاہی سید کا کہنا تھا کہ حکومت طالبان کےساتھ بات چیت کرنے یا آپریشن سے متعلق جلد فیصلہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے عمل کو شروع ہونے سے قبل ہی طول دینا نقصان دہ ہے۔ شاہی سید کا کہنا تھاکہ اگر حکومت فیصلہ کر لے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، ’’حکومت تاریخ کا اعلان کرے۔ طریقہ ء کار طے کرے کہ وہ (طالبان) اس تاریخ کو آجائیں، جو بھی بات کرنی ہے۔ اگر کسی کو پاکستان کے آئین میں رہتے ہوئے کوئی پرابلم ہے، تو وہ بات کرے لیکن اگر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تو حکومت کو اپنی عملداری قائم کرنی ہے اور یہ ضروری ہے۔‘‘
دریں اثناء پیر کی شام قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم نوا زشریف کی ایوان سے مسلسل غیر حاضری پر واک آؤٹ کیا۔ حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ آج پوری قوم کو توقع تھی کہ وزیر اعظم دہشت گردی کے معاملے پر قوم اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے علاوہ اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیر اعظم کی ایوان میں عدم موجودگی کے خلاف تحریک التوا بھی جمع کرائی۔