شمسی توانائی سے چلنے والی کار ’اسٹیلا‘
24 ستمبر 2014امريکا کی مغربی رياست کيليفورنيا ميں سورج کی روشنی کثرت سے پائی جاتی ہے، جو ’اسٹيلا‘ کے اس آزمائشی و نمائشی سفر کے ليے بے حد موزوں ثابت ہوا۔ شمسی توانائی کی مدد سے چلنے والی اس موٹر گاڑی کو ديکھنے کے ليے سينکڑوں افراد سڑکوں پر موجود تھے۔ کچھ نے اپنے اسمارٹ ٹيلی فونوں سے تصاوير اور ويڈيوز بنا کر، تو کچھ نے نعرے بازی کے ذريعے حوصلہ افرائی کرتے ہوئے اسٹيلا کے سفر سے لطف اٹھايا۔
کم وزن والی يہ موٹر گاڑی ايک مرتبہ چارج ہونے کے بعد آٹھ سو کلوميٹر تک چلنے کے صلاحيت رکھتی ہے اور دھوپ زیادہ تیز ہو، تو اس کی صلاحيت ميں اضافہ بھی ممکن ہے۔ چار سيٹوں والی يہ گاڑی زيادہ سے زيادہ 80 ميل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہے۔
اسٹيلا کے امريکی دورےکا آغاز رواں ماہ کے آغاز ميں ڈیٹرائٹ شہر ميں ’انٹيليجنٹ ٹرانسپورٹيشن سوسائٹی ورلڈ کانگريس‘ سے ہوا تھا۔ بعد ازاں اسے تيار کرنے والی ٹيم نے ايک تقريب ميں شرکت کے ليے سان فرانسسکو تک کا سفر کيا، جہاں وہ ہالينڈ سے تعلق رکھنے والے اپنے اسپانسر ’اين ايکس پی سيمی کنڈکٹرز‘ سے جا ملے۔ يہ تقريب مستقبل کی سڑکوں کے حوالے سے منعقد کی گئی تھی، جس ميں ايک دوسرے سے ’بات کرنے والی‘ يا ٹريفک سگنل وغيرہ جيسی چيزوں کی قبل از وقت معلومات رکھنے والے گاڑيوں کی مدد سے سڑکوں پر سفر کو زيادہ محفوظ بنانے جيسے معاملات پر بات کی گئی۔
اسٹيلا کو ہالينڈ کی آئيڈن ہوون يونيورسٹی آف ٹيکنالوجی ميں تيار کيا گيا ہے۔ يہ کار آسٹريليا ميں 2013ء ميں منعقدہ ورلڈ سولر کار چيلنج بھی جيت چکی ہے۔ اس گاڑی کو تيار کرنے والے طلباء کی ٹيم کے ايک رکن ليکس ہوفل سلوٹ کا کہنا ہے کہ آئندہ پانچ تا دس برس ميں ايسی گاڑيوں کو تيار کرنا اور انہيں شو رومز کی زينت بنانا ممکن تو ہے ليکن اس مقام تک پہنچنے کے ليے کافی کام درکار ہو گا۔ ہوفل سلوٹ کے بقول موٹر گاڑياں بنانے والی بڑی کمپنياں تاحال ايسے منصوبوں ميں اس ليے زيادہ دلچسپی نہيں رکھتيں کيونکہ وہ اسے ’کافی آگے کا‘ خيال قرار ديتی ہيں۔