1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کا انقلاب انتہا پسندوں کے ہاتھ نہیں لگنا چاہیے، ہلیری کلنٹن

1 نومبر 2012

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت شامی اپوزیشن کی مدد کے لیے تیار ہے تاہم اسے ’انتہا پسند عناصر‘ کی طرف سے اس انقلاب کو ’ہائی جیک‘ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانا ہو گا۔

https://p.dw.com/p/16ak0
تصویر: picture-alliance/dpa

کروشیا کا دورہ کرنے والی امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بدھ کو شامی بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا،’’ایسی پریشان کن اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ انتہاپسند شام کا رخ کررہے تاکہ وہ اُس جائز انقلاب کواپنے عزائم کے لیے استعمال میں لا سکیں، جوشامی عوام نے استحصال کرنے والی حکومت کے خلاف شروع کیا تھا۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ نے زور دیا کہ شامی اپوزیشن کو کوشش کرنا چاہیے کہ وہ اس انقلاب کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں نہ لگنے دے۔ کلنٹن کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ مختلف سنی جنگجو گروہ شام کا رخ کر رہے ہیں تاکہ وہ وہاں علوی شیعہ صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ ایسی خبریں بھی ہیں کہ شام میں جاری خانہ جنگی میں القاعدہ کے حامی جنگجو بھی شریک ہو چکے ہیں۔

سیاسی ناقدین کے بقول شام کی خانہ جنگی میں وہاں مبینہ طور پر غیر ملکی سنی جنگجوؤں کی موجودگی کی خبریں منظر عام پر آنے کی وجہ سے امریکی حکومت شامی اپوزیشن کو اسلحے کی فراہمی میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔

Syrien Kämpfe in Haram
شام میں خانہ جنگی کی کیفیت برقرار ہےتصویر: Reuters

امریکی وزیر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ واشنگٹن حکومت شام کے اندر اور شام سے باہر سرگرم شامی اپوزیشن کے مختلف گروہوں سے رابطے میں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بدلتے وقت کے ساتھ شامی اپوزیشن کے مختلف گروہوں کی تنظیم شامی قومی کونسل کو ملکی اپوزیشن کی نمائندہ قیادت نہیں کہا جا سکتا ہے، ’’یہ اپوزیشن کا ایک حصہ ہو سکتی ہے لیکن اپوزیشن میں شامی عوام اور دیگرفریقین کو شامل کرنا بھی ضروری ہے‘‘۔

دوسری طرف دمشق سے موصولہ اطلاعات کے مطابق صدر بشار الاسد کی حامی افواج باغیوں کے خلاف اپنی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے خبردار کیا ہے کہ اگر مغربی ممالک صدر اسد کے حوالے سے اپنے مؤقف میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے تو شام میں خون خرابہ مزید بڑھ سکتا ہے۔

پیرس میں اپنے فرانسیسی ہم منصب Laurent Fabius سے ملاقات کے بعد روسی وزیر خارجہ لاوروف نے کہا، ’’اگر ہمارے ساتھی مغربی ممالک صدر اسد کے اقتدار سے الگ ہونے کے مطالبے پر برقرار رہے، جنہیں وہ پسند نہیں کرتے تو شام میں ’خون کا غسل‘ جاری رہے گا‘‘۔ اس ملاقات کے بعد فرانسیسی وزیر نے اعتراف کیا کہ شام کی مستقبل کی حکومت میں صدر اسد کے ممکنہ کردار کے حوالے سے فرانس اور روس کسی سمجھوتے پر پہنچنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔

( ab /sks (AFP