شام میں مرغوں کی لڑائی، مقبول کھیل
24 مئی 2018شام کے شمال مغربی حصے میں شوفھان محمود اپنے نو ماہ کے مرغ کو گود میں لے کر بیٹھا ہے۔ اس نے اپنے مرغے کا نام ’سنائپر‘ رکھا ہوا ہے۔ یہ اس وقت لڑائی کے لیے بالکل تیار ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں مرغوں کی لڑائی پر پابندی عائد ہے۔ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اسے جانوروں کا استحصال سمجھتی ہیں۔ لیکن یہ قانون شام کے اس حصے میں لاگو نہیں۔
آٹھ برس قبل محمود نے اپنے گھر کے قریب مرغوں کی لڑائیاں کرانے کا ایک دائرہ نما کھدا ہوا کم گہرا گڑھا یا پالی بنایا تھا۔ اب یہاں سینکڑوں افراد ان لڑائیوں کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس پِٹ یا پالی
سے کچھ دور ایک فارم ہے جہاں مرغوں کی افزائش کی جارہی ہے۔ محمود کا فارم کرد آبادی کے شہر قامشلی شہر کے نواح میں ہے۔ 2012 میں جب سرکاری افواج نے کرد اکثریتی علاقوں سے انخلاء کر لیا تو مقامی انتظامیہ نے پولیس سمیت اپنے ادارے خود بنا لیے تھے۔ محمود کا کہنا ہے کہ بہت سے افراد مرغوں کی لڑائیاں دیکھنے آتے ہیں لیکن کچھ لوگ مرغوں کی لڑائیوں پر جوا کھیلتے ہیں۔
محمود کا کہنا ہے کہ یہاں پر لڑائی کرانے والے مرغے دنیا کے مختلف حصوں سے آتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ اس کے ’سنائپر‘ کو جرمنی سے یہاں لایا گیا ہے۔ کچھ بھارت اور کچھ مرغے پاکستان سے بھی منگوائے گئے ہیں۔ محمود کی رائے میں سب سے زبردست مرغے ترکی کے شہر آدانہ کے ہوتے ہیں ۔ جمعے کے روز محمود کے فارم میں سب سے زیادہ رش ہوتا ہے۔ شام میں اس دن چھٹی ہوتی ہے اس لیے بڑی تعداد میں لوگ مرغوں کی لڑائی دیکھنے آتے ہیں۔ لڑائیوں کا انعقاد کرانے والے ایک اور منتظم ریزان فیصل کا کہنا ہے،’’ یہاں لوگ ایک ہزار سے پانچ ہزار شامی پاؤنڈ کی شرطیں لگاتے ہیں اور کبھی کبھار یہ شرطیں گیارہ سو امریکی ڈالر تک جاتی ہیں۔
محمود نے بتایا کہ اس کھیل کو شام میں درجنو ں برس پہلے خانہ بدوشوں نے متعارف کرایا تھا۔ شامی کرد 2011 سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنگ کے بجائے اپنی ثقافت بچانے اور اپنے خود مختار علاقے آباد کرنے پر زور دیا ہے۔
اس علاقے میں کچھ لوگ مرغوں کی لڑائیوں پر شرط لگانے کو معیوب بھی سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے اپنے چہروں کو کیمرے کی آنکھ سے چھپا لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے گھر والے یہ دیکھیں کہ وہ جوا کھیل رہے ہیں۔
ب ج/ ع ح (اے ایف پی)