شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے امکان تک نہیں پہنچے، اوباما
4 ستمبر 2016امریکی صدر کا کہنا تھا، ’’ہم ایک طرح کے طریقوں کی تلاش میں رہے ہیں کہ وہاں تشدد کا خاتمہ اور متاثرہ افراد تک امدادی اشیا پہنچانے کی راہ ہموار ہو سکے اور یہی شام کے اندر سیاسی تبدیلی سے قبل ضروری اقدامات بھی ہیں۔‘‘ اوباما کا مزید کہنا تھا، ’’یہ ایک انتہائی پیچیدہ کام ہے۔‘‘
باراک اوباما چینی شہر ہانگ جو میں ہونے والی دنیا کی 20 مضبوط ترین معیشتوں کے گروپ، جی ٹوئنٹی کی سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے چین میں موجود ہیں۔ اس کانفرنس کے حاشیے میں اوباما نے شامی صدر کو حاصل روسی حمایت کے حوالے سے روس کے ساتھ موجود انتہائی گہرے اختلافات کا بھی ذکر کیا۔ تاہم امریکی میڈیا رپورٹوں کے مطابق واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان شام کے حوالے سے جلد کوئی معاہدہ طے پا سکتا ہے جس کا اعلان آج اتوار کی شام تک ہو سکتا ہے۔
CBS نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک ایک معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں جس کے تحت دہشت گرد گروپوں کے خلاف لڑائی کے لیے ملٹری اور انٹیلیجنس تعاون میں اضافہ کیا جائے گا، جبکہ اس کے عوض روس اپنے اتحادی بشار الاسد کو اس بات پر تیار کرے گا کہ وہ سویلین پر حملوں کا سلسلہ روک دیں اور متاثرین تک انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانے کی اجازت دیں۔
اوباما کا کہنا تھا کہ شام میں جاری تنازعے کے خاتمے کے لیے روس کا تعاون انتہائی اہم ہے۔ اوباما کے مطابق اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ وہاں جاری تشدد میں کمی واقع ہو سکے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق امریکی صدر کا کہنا تھا، ’’ہم ابھی تک وہاں نہیں پہنچے۔ اور ظاہر ہے جنگ کو رکوانے کی سابقہ کوششوں میں ناکامی کے بعد ہم اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے کچھ خدشات بھی رکھتے ہیں۔۔۔ مگر پھر بھی یہ کوشش کرنا اہم ہے۔‘‘
شامی تنازعے کا آغاز صدر بشار الاسد کے خلاف 2011ء میں پر امن مظاہروں سے ہوا تھا مگر جلد ہی یہ ایک مکمل جنگ کی صورتحال اختیار کر گیا۔ شام میں جاری اس بحران کی وجہ سے اندازوں کے مطابق اب تک تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کئی ملین بے گھر ہیں۔