1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی عوام کے لیے حالات زیادہ سے زیادہ ناقابل برداشت

23 جولائی 2012

شام میں حالات بدستور تناؤ کا شکار ہیں۔ باغیوں کا زور توڑنے کے لیے حکومتی فوجی دستوں اور باغیوں کے درمیان نہ صرف دارالحکومت دمشق میں شدید جھڑپیں جاری ہیں بلکہ اب حلب شہر بھی ان جھڑپوں کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/15dIb
تصویر: Reuters

اتوار کو حکومتی دستوں نے دمشق میں دو علاقے باغیوں سے واپس چھین لیے۔ اپوزیشن ارکان کا کہنا ہے کہ وہاں حکومتی دستوں نے باغیوں کا ساتھ دینے کے الزام میں کم از کم بیس غیر مسلح شہریوں کو بھی ہلاک کر دیا۔ کئی ملین شامی شہری ان جھڑپوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں جبکہ ہزارہا پناہ کی تلاش میں ہیں۔

شامی اپوزیشن کے مطابق شامی سکیورٹی فورسز باغیوں سے دارالحکومت دمشق کے وہ علاقے واپس چھیننے کی کوشش کر رہی ہیں، جن پر وہ تقریباً ایک ہفتے سے قابض ہیں۔ اقتصادی سرگرمیوں کے مرکز شمالی شہر حلب سے بھی شدید جھڑپوں کی خبریں مل رہی ہیں۔ اتوار کو اپوزیشن کی فری سیریئن آرمی کے ایک جنرل نے اسد مخالف تمام جنگجوؤں پر زور دیا تھا کہ وہ اس شہر کو حکومتی عناصر سے پاک کر دیں۔

حلب کے قریب شامی باغی اپنی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے
حلب کے قریب شامی باغی اپنی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa

ترکی اور عراق کے ساتھ ملنے والی شامی سرحدوں پر بھی حالات غیر واضح ہیں۔ اتوار کو باب السلام نامی سرحدی گزرگاہ باغیوں کے قبضے میں تھی اور ایک انٹرنیٹ ویڈیو میں باغیوں کو اس سرحدی چوکی پر قبضے کا دعویٰ کرتے دکھایا گیا تھا۔ ایک باغی نے کہا:’’ہم نے اسد کے حامیوں کو گھیرے میں لے کر باب السلام چوکی کو اُن کے قبضے سے آزاد کروا لیا ہے۔ شدید نقصان اٹھا کر وہ پسپا ہو گئے۔ مَیں فری سیریئن آرمی کے جنگجو بھائیوں کے ساتھ باب السلام کے دروازے میں کھڑا ہوں۔ یہ عمارت ہمیں ترکی سے الگ کرتی ہے۔ خدا نے چاہا تو ہم حلب کو آزاد کروائیں گے اور پھر غدار سے نجات حاصل کرنے کے لیے دمشق کے صدارتی محل کی طرف مارچ کریں گے۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ بعد ازاں اس سرحدی چوکی پر فضا سے حملہ کیا گیا اور اس وقت یہ چوکی لڑائی کی زَد میں ہے۔ اُدھر عراقی حکام کی طرف سے اس بیان کے بعد کہ ایک شامی سرحدی چوکی فری سیریئن آرمی کے کنٹرول میں ہے، اب وہ چوکی بھی لڑائی کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران چند ایک ہزار عراقی شام سے واپس اپنے وطن چا چکے ہیں۔ سرحد کے قریبی علاقے الوحید کے گورنر عبد المنیم خلاف کہتے ہیں:’’شام کی تازہ صورت حال کے بعد ایک بڑی تعداد واپس عراق آئی ہے۔ صرف گزشتہ جمعرات کو ہی وہاں کے پُر تشدد واقعات سے تنگ آ کر تین ہزار سے زیادہ عراقی شہری واپس آئے۔ سرحدی چوکی پر کام مشکل ہو گیا ہے بہرحال ہم نے وزارتِ ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں میں ان لوگوں کو بغداد روانہ کر دیا۔‘‘

شامی سکیورٹی فورسز کے ٹینک دمشق کی سڑکوں پر گشت کرتے ہوئے
شامی سکیورٹی فورسز کے ٹینک دمشق کی سڑکوں پر گشت کرتے ہوئےتصویر: Reuters

اپوزیشن کی شامی قومی کونسل کا کہنا ہے کہ اُس نے سرحدی معاملات طے کرنے کے لیے ترک حکومت کے ساتھ رابطہ قائم کر لیا ہے۔ کونسل کے سربراہ عبد الباسط سیدا کے مطابق:’’سرحدی چوکیوں پر مکمل کنٹرول کے سوال کو ابھی ہمیں مزید جانچنا ہے۔ ہم اس موضوع پر قومی کونسل، فری سیریئن آرمی اور ترک حکومت کے ساتھ بات کر یں گے۔ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے بنیادی نوعیت کے فیصلے کرنا پڑیں گے۔‘‘

اُدھر شام کے سرکاری ٹیلی وژن پر کئی روز کے وقفے کے بعد اتوار کی شام ایک بار پھر صدر بشار الاسد کو دکھایا گیا، جو اپنے نئے آرمی چیف علی ایوب کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔

H.M. Ehl/aa/km